سلات کے مرکزی صدر گل حسن گل ملک کو شاہ لطیف عالمی ایوارڈ ملنے کے اعزاز میں سیمینار کا انعقاد

 حیدرآباد/کراچی ( صباح نیوز)سندھ کے لوک ادب اور سگھڑوں کی تنظیم (سلات) کے مرکزی صدر گل حسن گل ملک کو سندھ کے ثقافتی محکمے کی جانب سے شاہ لطیف عالمی ایوارڈ ملنے کے اعزاز میں رہبرادبی سوسائٹی (راس) کی جانب سے حیدرآبادکلب میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبے بھر سے بڑی تعداد میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کرکے گل حسن گل ملک کومبارکباد ،سندھ کی سوکھڑی اجرک، گلدستے اور کتابیں پیش کرکے شاعری کے ذریعے ان کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا۔سیمینار میں شریک لوک ادب کے نوجوان محقق اور سلات کے بانی چیئرمین رحمت اللہ عاجز لاشاری،راس کے صدر علی نواز ڈومکی، سپلاکے پروفیسر شاہ جہان پہنور،عربی ادب کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر اشرف سموں، دعوہ اکیڈمی کے ڈاکٹرشہزاد چنا،تعلیمی ماہر سرورملاح، سابق ایم پی اے عبدالوحید قریشی،ادبی اسکالر عبدالحفیظ احمدانی،لوک ادب کے شعرا محمدیعقوب جاگیرانی،خادم حسین ،نظیراحمد میمن، سلیمان جونیجو، الہڈنو بروہی اور حسن ٹالپر سمیت دیگر کا کہنا تھا کہ لوک ادب سندھ کا اصل ورثہ ہے جس کو ہمارے اداروں نے فراموش کردیا ہے، سندھ کے ثقافت کے محکمے سمیت سندھی ادبی بورڈ،اکادمی ادبیات،مرزاقلیچ بیگ چیئر،ڈاکٹر نبی بخش بلوچ چیئر، این اے بلوچ انسٹیٹوٹ سمیت دیگر اداروں نے آج تک لوک ادب کا کوئی بھی ادارہ قائم نہیں کیا ہے جس سے ان کی عدم توجہی اور بے حسی صاف ظاہر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لوک ادب کو نظرانداز کرکے محض راگ گانے والوں کو ترجیع دی جارہی ہے، اگر سندھی زبان کو زندہ رکھنا ہے تو سندھی لوک ادب کی سرپرستی کرنا ہوگی۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ڈاکٹر عبدالکریم سندیلو،ڈاکٹر کمال جامڑو کا کیا ہوا کام قابل تعریف اور اپنی زبان سے محبت کا اظہار ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ کلچرل ڈپارٹمنٹ کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ کو بھی لوک ادب کی مالکی اور ان کی سرپرستی کرنی چاہئے۔تقریب کے مہمان خصوصی سابق ایم این اے محمد حسین محنتی نے لوک ادب کے شاعروں کی مالکی اور داد رسی کرنے کیلئے سندھ اسمبلی میں آواز اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سندھی لوک ادب کے شاعر ہمارا سرمایہ ہیں جنہوں نے سندھ کے ریتوں، رسموں اور زبان کو زندہ رکھنے کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سندھی لوک ادب سے وابستہ شاعروں اور ادیبوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے بلکہ انکا مقدمہ ہر محاذ پر پیش کریں گے، سندھ باب الاسلام ہے قیام پاکستان کی پہلی متفقہ قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش کی گئی،

شاہ لطیف ایوارڈ ملنے پر گل حسن گل ملک کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی زبان،ثقافت اورتہذیب کو بچانے کیلئے ایسے ہزاروں گل ملک پیدا کرنے ہونگے جو اپنی نظم اور نثر کے ذریعے سندھ کا کیس لڑیں اور آنے والی نسلوں میں شعور پیدا کریں۔حقیقت میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام توحید، امن اور انسانیت سے محبت کرنے کا درس دیتا ہے۔ سندھ سگھڑ تنظیم کے چیئرمین رحمت اللہ عاجز لاشاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو ان کی زندگی میں ہی خدمات پر خراج تحسین پیش کرنا چاہئے، گل حسن گل ملک کی شخصیت سندھکے لوک ادب کی پہچان ہے، سندھی ادبی بورڈ کا کام لوک ادب کو پروان چڑھانا ہے مگر وہ اس سلسلے میں ناکام رہے ہیں، جبکہ سندھ حکومت کا ثقافتی محکمہ اور صوبائی وزیر سردار شاہ،سیکریٹری اکبر لغاری نے لوک ادب کو بڑاھاوا دینے کے جو وعدے کئے تھے وہ وفا نہ ہوسکیجس کی وجہ سے لوک ادب کے شاعر ان کو بددعائیں دے رہے ہیں، لوک ادب دینی ادب ہے جس کے وسیلے توحید ورسالت اور صحابہ واہلبیت کی مدح سرائی کی جاتی ہے ،سندھی زبان اور ثقافت کو بچانے کیلئے لوک ادب کا الگ سے ادارہ قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

(راس) کے مرکزی صدر نواز علی ڈومکی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کی زمین نے بڑے بڑے عالم پیدا کئے جنہوں نے مکہ مدینہ سمیت پورے خطے میں خدمات پیش کی ہیں،حقیقت میں ہم مردہ پرست قوم ہیں جن لوگوں کو زندگی میں پتھرمارتے ہیں مرنے کے بعد ان کی تعریف کرتے ہیں، آج ایک زندہ شخصیت کیلئے یہ تقریب رکھی گئی ہے جو اچھی بات ہے،لوک ادب کے شعرا نے اپنے کلام کے ذریعے قوم کو شعور دیا ہے ،شاہ لطیف شاعروں کے سر کا تاج ہیں، شاہ لطیف ایوارڈ ملنا گل حسن گل ملک کیلئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ دریں اثنا  (راس)رہبر ادبی سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری پروفیسر نصراللہ لغاری نے آنے والے مہمانوں کو سندھ کا روایتی تحفہ اجرک پیش کیا۔