گذشتہ روز رکھ موڑ میں اپنے کزن حاجی افتخار احمد کے جنازے سے فارغ ھوئے ہی تھے کہ ان کے بھانجے اور ھمارے دوسرے کزن حاجی
عبدالستار کے جواں سال بیٹے کی گھر سے کوسوں میل دور، چنیوٹ شہر میں کسی ناگہانی افت کے نتیجے میں انتقال کی افسوسناک خبر سننے کو ملی۔
آج دن کو اس نوجوان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ایک بار پھر راولپنڈی سے گاؤں کی طرف نکلنے سے پہلے
“پی ٹی ائی” کے جلسے کے باعث، ممکنہ طور پر بند راستوں کے بارے میں جزوی معلومات بھی لے لیں تاکہ کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔۔۔
غالب گمان یہ تھا کہ باہر سے اسلام آباد شہر کی طرف آنے والے راستے تو بند ھونگے لیکن شہر سے باہر جانے والے راستوں کی بندش کا کوئی جواز ہی نہیں ۔۔۔
یہی سوچ کر ھم نے اپنے سفر کا اغاز کری روڈ سے کیا۔۔۔
ارادہ یہ تھا کہ کری روڈ سے سروس روڈ اور پھر کھنہ پل سے اتر کر براستہ ہائی وے روات کی طرف نکل جائیں گے ۔۔
مگر یہ کیا جب کری روڈ کے اخر پر پہنچنے تو دیکھا کہ سروس روڈ پر داخلے کا راستہ کنٹینرز لگا کر اس طرح بند کیا گیا ھے کہ پیدل افراد بھی کری روڈ سے سروس روڈ یا سروس روڈ سے کروی روڈ میں داخل نہ ھو سکیں۔۔۔
مجبوراً ھم نے گاڑی کا رخ یہ سوچ کر پیچھے موڑ لیا کہ چلیں براہ راست کھنہ روڈ ہی سے کھنہ پل پر نکل جاتے ہیں۔۔
سامنے نظر پڑی تو دیکھا کہ ایک میت کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں پیدل لوگ اور قافلے کے پیچھے نماز جنازہ میں شرکت کے لیے بیسیوں گاڑیوں کی ایک قطار راستے کی بندش کے لیے لگائے گے کنٹینرز کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔۔
اور سروس روڈ پہ واقع قبرستان اور ان افراد کے درمیان اب صرف یہی کنٹینرز حائل تھے۔۔
ایک فرد کہنے لگا۔۔
یہ بیچارے اب کیسے قبرستان تک جائیں گے۔۔۔
ایک اور فرد نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔۔
کیوں۔۔۔؟
تو پہلے فرد نے طنزیہ انداز میں جواب دیا کہ اگے بھی ایک جنازہ ھو رہا ھے۔۔
ھم اس سے زیادہ نہ دیکھ سن پائے اور اپنے سفر پہ اگے نکل گئے۔ٹرانسفارمر چوک پہنچے تو معلوم ہوا کہ کھنہ پل بھی بند ھے۔البتہ مری روڈ کھلا ھوا ھے اور اپ براستہ مریڑ چوک سواں پل کی طرف سے روات اور پھر اگے گاوں کی طرف جا سکتے ہیں ۔۔۔
مشورہ معقول لگا سو ھم جلدی سے گاڑی کا رخ موڑ کر مریڑ چوک کی طرف چل پڑے۔۔۔
چند ہی منٹوں میں وہاں پہنچے تو دیکھا کہ چوک سے پہلے ھی کنٹینرز لگا کر راستہ بند اور بڑی تعدا میں پولیس کے جوان لمبے لمبے ڈنڈوں کے ساتھ موجود ہیں۔۔
ھم گاڑی سے اترے اور ھمت کر کے ایک پولیس کے ایک جوان سے پوچھا کہ ھم نے چکوال روڈ پہ واقع ایک گاؤں میں فوتگی پہ جانا ھے اور جدھر جاتے ہیں اگے راستے بند مل رہے ھیں۔۔
کیا اپ نے پیدل جانا ھے۔۔۔؟
موصوف کے اس سوال پر شدید غصہ ایا مگر اسے کنٹرول کرتے ھوئے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔۔لیکن یہ ضرور کہا کہ کیا اپ بھی پنڈی سے روات کی طرف پیدل جاتے ہیں۔۔۔
اسی مصیبت میں گرفتار دائیں بائیں بیسیوں اور وگ بھی موجود ھماری طرف دیکھ رہے تھے۔۔پولیس والے نے ہمیں مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بیچوں بیچ نکلنے والے یک راستے کی نشاندہی کی لیکن ھم جس قدر خجل ھو چکے تھے اس کے بعد گھر کی خواتین کے ساتھ یسے کسی نامعلوم راستے کو اپنانے سے واپس گھر چلے جانے کو زیادہ بہتر سمجھا۔
البتہ پولیس والے سے گفتگو کے دوران کچھ فاصلے موجود بعض افراد ھماری واپسی اور ممکنہ جواب کا انتظار کررہے تھے اور ھم سوچ رہے تھے کہ جب وہ ھم سے پوچھیں گے کہ اگے کیا ھے راستہ کیوں بند ھے تو کیا ھم بھی ان کو وہی جواب دیں جو کری روڈ پہ ہمیں سننے کو ملا تھا کہ
” اگے جنازہ ھو رہا ھے”۔۔
لیکن ایسے جوابات کے انجام سے بخوبی آگاہ ھونے باعث ھم نے خاموش رہنا زیادہ بہتر سمجھا۔