اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان بزنس فورم کا کہنا ہے نئی مانیٹری پالیسی میں بزنس کمیونٹی کو ریلیف دیا جائے۔ اچھی مانیٹری پالیسی ہونی چاہیے تاکہ انڈسٹری کو چلا سکیں۔بجلی کے بڑھتے بلوں کی وجہ سے تاجر برادری پریشان ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ اسٹیٹ بینک مہنگائی میں کمی اور بہتر میکرو اکنامک اشاریوں کی وجہ سے مسلسل تیسری بار کمی کے جذبات کو تقویت دینے کے لئے اپنا نرم موقف برقرار رکھے گا۔ مرکزی صدر پاکستان بزنس فورم خواجہ محبوب الرحمن نے اپنے بیان میں کہا ہم 150 بیسس پوائنٹس کی کٹوتی کی توقع کررہے ہیں جس سے پالیسی ریٹ 18 فیصد پر آجائیگا جو آخری بار فروری 23 میں دیکھا گیا تھا جب یہ 17 فیصد تک گرگیا تھا۔جولائی میں مرکزی بینک کی ایم پی سی نے کلیدی پالیسی ریٹ کو 100 بی پی ایس کم کرکے 19.5 فیصد کردیا تھا۔
اگست 2024 میں پاکستان میں افراط زر کی شرح سالانہ بنیاد پر 9.6 فیصد رہی جو جولائی 2024 کے مقابلے میں کم ہے جب یہ 11.1 فیصد تھی۔ ادارہ شماریات کے مطابق سی پی آئی پر مبنی افراط زر کی شرح 3 سال کے عرصے کے بعد سنگل ڈیجٹ میں واپس آگئی ہے۔اس کے نتیجے میں 1،000 بی پی ایس کی حقیقی شرح سود پیدا ہوئی ہے جس سے شرح سود میں مزید کٹوتی کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
پی بی ایف کا مزید کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 20 فیصد تک ہونے والی کمی کے باعث پاکستان کے تیل کے درآمدی بل میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی اور جس سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو استحکام ملے گا بلکہ بروقت بین الاقوامی ادائیگیوں میں مدد ملے گی جس کے مثبت اثرات جلد معیشت پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ خام تیل کی فی بیرل قیمتوں میں پانچ ڈالر کمی کے نتیجے میں پاکستان کے سالانہ تیل کے درآمدی بل میں 90 کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر میں 35 بنیادی پوائنٹس مزید گھٹتے ہیں اور اس کے نتیجے میں حکومت کو پی ایل ڈی میں مزید اضافے کی گنجائش ملتی ہے تاکہ مالیاتی توازن برقرار رکھ سکے۔