اے جی نورانی: علم کا بہتا دریا خاموش ہوگیا …تحریر : افتخار گیلانی


بھارتی دارلحکومت نئی دہلی کے کانسٹٹیٹیوشن کلب میں ایک بار موقراخبار دی ہندو کے ڈائریکٹر اور معروف صحافی این رام نے ایک کتاب کی رونمائی کے دوران کہا کہ ان کے دفتر میں لائبریری اور ریفرنس کے شعبہ میں تقریبا پچاس افراد کام کرتے ہیں، مگر ایڈیٹوریل لکھتے وقت جب ان کو کسی حوالہ کی ضرورت پڑتی ہے، تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں یا اتنا وقت لگاتے ہیں کہ اخبار کا ایڈیشن پریس میں چلا گیا ہوتا ہے۔ اسلئے جب بھی انکو حوالہ جات کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ اے جی نورانی کو ممبئی میں ان کی رہائش گاہ پر فون کرتے ہیں ، تووہ اس حوالہ کی بازیابی میں ایک منٹ سے بھی کم وقفہ لیتے ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ بس فون ہولڈ کرکے رکھو اور جھٹ سے حوالہ نکال کر پڑھتے ہیں یا ان کو فیکس کردیتے ہیں۔ دستاویزات یا کتابیں جمع کرنے سے زیادہ وقت پر ان کی بازیافت کسی بھی محقق کیلئے ایک بڑاچیلنج ہوتا ہے۔ یہ قصہ نورانی کی ایسی علمی قابلیت کا خلاصہ ہے، جس سے وہ بس ایک شخصیت نہیں ، بلکہ ایک ادارہ، چلتے پھرتے کتب خانے اور مستنند محقق کے طور پرعلمی حلقوں میں جانے جاتے تھے۔ اس نابغہ روزگار شخصیت کا 29 اگست کو ممبئی میں 94 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ وہ پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ زین نورانی کے برادر اصغر تھے۔ 29اگست کی دوپہر ان کے نوکر وسیم کا فون کئی بار آرہا تھا، مگر وہ بات نہیں کر پا رہا تھا ، یا لائن میں کچھ خرابی تھی۔ اس کے پانچ منٹ بعد ہی دہلی سے قربان علی کا فون آیا۔ دسمبر 1992کو انہوں نے بی بی سی کے نامہ نگار کی حیثیت پوری دنیا کو بابری مسجد کی شہادت کی خبر سنائی تھی، آج انہوں نے ایسے شخص کی وفات کی خبر سنائی ، جو خود ایک عہد تھا، اور جس نے بابری مسجد کے حوالے سے د و جلدوں پر مشتمل کتاب تحریر کرکے اس کو تاریخ کی کتابوں میں ا مر کردیا، چاہے مادی طور پر اس کا نشان مٹ چکا ہو۔ پندرہ روز قبل میں نے نورانی صاحب کو فون کیا تھا، تو وہ بہتر محسوس کر رہے تھے۔ ان کی آواز کی لرزش بھی ختم ہو چکی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں اب قلم ہاتھ میں پکڑ پاتا ہوں اور مجھ پر دو کتابوں کا قرض ہے۔ میں سپریم کورٹ کے بابری مسجد سے متعلق فیصلہ پر کتاب مکمل کروں گا، اس کے سبھی دستاویزات میرے پاس آچکے ہیں اور اسی کے ساتھ انڈین آرمی اور کشمیر بھی مکمل کرکے کتابیں لکھنے سے ریٹائرمنٹ لوں گا۔ پبلشرز انڈیا۔چین بانڈری ڈسپیوٹ کی دوسری جلد لکھنے پر زور دے رہے ہیں، مگر اب یہ میری دسترس سے باہر ہے۔ میں ان کو ہمت دلا ہی رہا تھا کہ تھوڑی دیر بعد انہون نے شکوہ کیا کہ افتخار صاحب، آپ کے جانے سے میرے ہاتھ کٹ گئے ہیں۔ کس کو دستاویزات جمع کرنے اور پھر ان کو مہیا کروانے کیلئے کہوں؟ صاحب فراش تو ہوں ہیں، مگر کئی کام آپ کے جانے کی وجہ سے رک گئے ۔ میں نے دہلی میں اپنے قیام کے دوران اور جب سے ان سے شناسائی ہوئی، ان کی پانچ اہم کتابوں کیلئے بطور ریسرچر کام کیا تھا۔ ان کی وساطت سے نیشنل آرکائیوز تک رسائی حاصل ہوگئی تھی اور دستاویزات کو ڈھونڈنے اور ان کو استعمال کرنے کا کام سیکھنے کا موقع ملا۔ ذہن کے دریچوں پر زور دیتے ہوئے میں یاد کرنے کوشش کررہا تھا کہ نورانی صاحب سے کب شناسائی ہوئی تھی۔ چند برس قبل انہوں نے ہی مجھے یاد دلایا تھا۔ مارچ 1992 میں جب کشمیری رہنما سید علی گیلانی، پروفیسر عبدالغنی بھٹ، عباس انصاری، عبدالغنی لون،کم و بیش ساڑھے تین سال بعد جیل سے رہا ہوئے تھے توکچھ عرصہ کے بعد وہ دہلی تشریف لائے۔ صحافتی زندگی کے ابتدائی د ن تھے۔ میرے ایک رومیٹ ، جن کا تعلق بھی سوپور سے ہی تھا اور گیلانی صاحب کے بڑے معتقد تھے، مجھے چانکیہ پوری میں واقع کشمیر ہاؤس ساتھ لے جاکر ملاقات کرانے کیلئے لے گئے۔ تب تک ان سے بس اتنا تعلق تھا کہ وہ سوپور سے ایم ایل اے رہ چکے تھے اوربطور ایک عام فرد جلسہ گاہ میں ان کی تقریریں سنتا آیا تھا۔ ان سے ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ہم وہیں سرینگر سے ان کے ہمراہ آئے اسٹاف کا ہاتھ بٹانے لگے۔ اسی دوران ایک تیز و طرار شخصیت وارد ہوگئی، ہمارے بغیر انہوں نے سبھی کو کمرے سے باہر نکلنے کیلئے کہا۔ چونکہ ہم چائے وغیرہ سرو کررہے تھے، اس لئے ہم پر ان کا دھیان نہیں گیا۔جانے سے قبل انہوں نے گیلانی صاحب سے کہا کہ وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا چاہتے ہیں، جو مضامین لکھنے وغیرہ میں مدد کرے اور انکو کشمیر کے حالات سے باخبر رکھے۔ میں اور میرے رومیٹ ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ گیلانی صاحب نے اشارہ سے مجھے بلایا اور میرا ان سے تعارف کروایا۔ اگلے دن ہی انہوں نے مجھے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے کمرہ نمبر 38میں مدعو کیا۔ وہ جب بھی دہلی آتے تھے، تو اسی کمرے میں ٹھہرتے تھے۔ میرے پاس چونکہ فون نہیں تھا، اس لئے انہوں نے مجھے تاکید کی تھی کہ اتوار کو 11بجے کے آس پاس ان کو فون کیا کروں ۔ میں پورے ہفتے نوٹس بناکر اس دن فون پر ان کو گوش گزار کرتا تھا۔ جب وہ دہلی آتے، تو اپنی ڈائری نکال کر بتاتے تھے کہ میں نے کتنی کالیں کیں ہیں اور اگر پوسٹ سے کچھ بھیجا ہوتا، تو اس کا حساب کرکے پیسے دیتے تھے۔ وہ معاملات کے بہت پکے تھے، اورپیسے لینے سے منع کرنا جیسے ا نکے قہر کو آواز دینا جیسا ہوتا تھا۔ انہوں نے ممبئی کی گورنمنٹ لا یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی اور 1950 کی دہائی میں بمبئی ہائی کورٹ میں قانون کی پریکٹس شروع کی۔جموں و کشمیر اور بھارت۔ پاکستان امور پر وہ ایک طرح سے حرف آخر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کی باغی رہنما اور نامور سائنسدان وکرم سارا با ئی کی بہن مردولا سارا بائی نے کشمیر سے ان کو متعارف کروایا تھا۔ سارا بائی جموں و کشمیر کے پہلے وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی پرجوش حامی تھیں اور ان کے ساتھ اپنی پارٹی کے سلوک سے نالاں تھیں۔ جب شیخ عبداللہ کو 1958 میں کشمیر سازش کے مقدمے کے تحت دوبارہ گرفتار کیا گیا تو برطانوی وکیل بیرسٹر ڈینگل فٹ نے پاکستان کے کہنے پر مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم مھارتی حکومت نے واضح کیا تھا کہ وہ کسی بھی غیر ملکی وکیل کو بھارتی عدالت میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔سارا بائی نے ممبئی کے نوجوان وکیل نورانی کی خدمات حاصل کیں۔اس طرح وہ پہلی بار 1962 کو جموں وارد ہوئے، جہاں اسپیشل جیل میں شیخ عبداللہ اور ان کے رفقا قید تھے۔ اس نے اس خطے کے ساتھ ان کی زندگی بھر کی وابستگی کو جنم دیا۔ انہوں نے اس وابستگی کو خوب نبھایا۔ کشمیر کے تقریبا تمام لیڈران، چاہے وہ کسی بھی خیمہ سے تعلق رکھتا ہو، ان کے ساتھ ان کا تعلق اور احترام کا جذبہ تھا۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ 92