آخرکار سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کا فیصلہ کر دیا اور اس کیس کے متعلقہ اپنے سابقہ دو فیصلوں کے تمام متنازع پیراگراف حدف کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تسلیم کیا کہ اُن سے غلطی ہوئی، اُنہوں نے کہا کہ غلطی کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے، غلطی ہو تو اصلاح بھی ہونی چاہئے اور یوں اپنے پہلے دو سابقہ فیصلوں کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے وہ فیصلہ کیا جو پاکستان کے مسلمانوں کیلئے نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ اس فیصلے نے پاکستان کو ایک ایسے شر اور فتنے سے بچالیا ہے جس سےمبارک ثانی کیس کے پچھلے فیصلوں سے شدید خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر وہاں موجودمذہبی رہنماؤں اور علماء کرام کی طرف سے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا گیا۔ فیصلہ آتے ہی سپریم کورٹ کے باہر مظاہرین واپس چلے گئے اور فیصلے کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مخصوص چھوٹے سے طبقے کی طرف سے چیف جسٹس کو کوسا جانے لگا اور یہ تاثر دیا گیا جیسے چیف جسٹس نے یہ فیصلہ مذہبی حلقوں کے دباؤ پر دیا۔ مبارک ثانی کیس کے اس فیصلہ سے نالاں طبقے کا مسئلہ سب اچھی طرح سمجھتے ہیں، یہ وہ طبقہ ہے جو قادیانیت کے حوالے سے طے شدہ معاملات کو دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔ یہ کہنا اور تاثر دینا کہ جیسے مبارک ثانی کیس کے سابقہ دو فیصلوں سے صرف مذہبی حلقوں کو اعتراض تھا قطعی درست نہیں۔ مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے پہلے دو متنازع فیصلوں کو نہ صرف تمام مکاتب فکر کے علماء کی طرف سے متفقہ طور پر رد کیا گیا بلکہ قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں چاہے اُنکا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ان فیصلوں کو نہیں مانتے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان فیصلوں کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے اُنہیں ختم کروایا جائے۔ چاہے پیپلزپارٹی ہو، ن لیگ، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم یا کوئی اور سب اس معاملہ میں قومی اسمبلی میں ایک تھے۔اگر کسی کو کوئی شک ہو تو قومی اسمبلی میں اس معاملہ پر کی گئی تقریروں کو سن لے، جو فیصلہ قومی اسمبلی کی کمیٹی نے اتفاق رائے سے کیا وہ پڑھ لے ۔ پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل کی تقریر کو ہی سن لیں تو سمجھ آ جائے گی کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں پیپلز پارٹی جیسی سیکولر سیاسی جماعت اور ٹی ایل پی کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں۔ جو اس معاملہ کو صرف مذہبی حلقوں سے جوڑتے ہیں وہ وکلاء کی مختلف تنظیموں اور بار کونسلز کے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے سابقہ دو فیصلوں کے حوالے سے جاری بیانات بھی پڑھ لیں ۔ قادیانیت کے حوالے سے اگر ایک طرف علماء کرام کا اتفاق رائے ہمیشہ رہا تو آئین پاکستان میں بھی سیاستدانوں کی طرف سے پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوے اسی اتفاق رائےکا اظہارماضی میں بھی ہوا اور اب بھی ہوا۔ گویا مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے جو پہلے دو فیصلے کیے وہ پاکستان کے تمام مسلمانوں کیلئے تکلیف کا بھی باعث تھے اور ناقابل قبول بھی تھے۔ اگر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس نے اپنی غلطی تسلیم کی اور جو غلط فیصلہ ہوا اُسے درست کیا تو اس پر اعتراض نہیں بلکہ اس عمل کی تحسین ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے 6فروری 2024اور 24جولائی 2024کے سابق فیصلوں میں تصحیح کرتے ہوئے معترضہ پیراگراف حذف کر دیے ہیں، عدالت نے قراردیاہے کہ ان حذف شدہ پیراگرافوں کو مستقبل میں عدالتی نظیر کے طور پر کسی بھی عدالت میں پیش یا استعمال نہیں کیا جا سکے گا جبکہ ٹرائل کورٹ ان پیراگراف سے متاثر ہوئے بغیر ملزم مبارک ثانی کیخلاف توہین مذہب کے مقدمہ کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ