علامہ اقبال نے ضرب کلیم میں ہند کے شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں پر طنز کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ’آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار‘۔ 1936ء میں شائع ہونیوالی اس تصنیف کو حضرت اقبال نے ’دور حاضر کیخلاف اعلان جنگ‘ کا ذیلی عنوان دیا تھا۔ اس کتاب میں عورت کے موضوع پر نو مختصر نظمیں شامل ہیں۔ عورت کے حقوق ،آزادی اور مساوات کے تصورات یورپ میں روشن خیالی کی تحریک کے زیر اثر اٹھارہویں صدی کے آخری برسوں میں نمودار ہوچکے تھے۔ تھامس پین کی کتاب ’Rights of the man ‘1791 ء میں شائع ہوئی اور Mary Wollstonecraftکی کتاب A Vindication of the Rights of Woman 1792 ء میں سامنے آئی۔ جدید دنیا کی معیشت، معاشرت اور سیاست کے تقاضے روایتی صنفی تصورات اور اقدار کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس موضوع پر اقبال کے خیالات قدامت پسندی کے آئینہ دار ہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف اقبال کی زندگی میں ہم عصر مذہبی پیشوا ان کے مخالف رہے اور دوسری طرف تاریخ نے ثابت کیا کہ عورت شاعروں اور مصوروں کی بجائے طبقہ زہاد کے اعصاب پر سوار ہے۔ 16اگست 2024 ء کو اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پاور کے اجلاس میں شریک تحریک انصاف کے ایم این اے اقبال آفریدی نے کراچی الیکٹرک کمپنی کی ایک اعلیٰ خاتون افسر کے لباس پر نہایت نازیبا تبصرہ کیا۔ اس کمیٹی میں خاتون رکن اسمبلی محترمہ نوشین افتخار سمیت اکیس ارکان کو مذکورہ خاتون کے لباس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن اجلاس کے بعد محرک کی حیثیت سے اجلاس میں شریک رکن قومی اسمبلی اقبال آفریدی نے زیربحث امور کی بجائے کے الیکٹرک کی نمائندہ خاتون کے لباس پر تنقید شروع کر دی۔ آفریدی صاحب کے مطابق ’ایسے اجلاسوں میں لباس کے معیارات مقرر ہونے چاہئیں کیونکہ قوم اپنے نمائندوں کو رول ماڈل کے طور پر دیکھتی ہے‘۔ دراصل اقبال آفریدی صاحب ایس او پی کی آڑ میں عورتوں پر مخصوص لباس کی پابندیاں عائد کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 22 جون کو تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ثنااللہ مستی خیل نے پارلیمنٹ میں ایسی غلیظ زبان استعمال کی کہ اسپیکر کو اجلاس کی بقیہ مدت کے لیے ان کی رکنیت معطل کرنا پڑی۔ اس موقع پر اقبال آفریدی اپنی جماعت کے رکن اسمبلی کی مغلظات پر جوش و خروش سے ڈیسک پیٹتے دکھائی دیے۔ کیوں نہ ہو۔ تحریک انصاف کے بانی نے نومبر2006ء میں تحفظ نسواں کے مسودہ قانون کی مخالفت کی تھی۔ 22جون 2021ء کو بطور وزیر اعظم عالمی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ریاست مدینہ (جدید) کے موید نے فرمایا تھا کہ مرد روبوٹ نہیں ہے، عورتیں ’نامناسب لباس‘ پہنیں گی تو مردوں کو ہراسانی کی تحریک ملے گی۔ 2007ء سے 2017ء تک مذہبی دہشت گردوں نے قبائلی علاقوں میں بچیوں کے گیارہ سو اسکول تباہ کیے۔ اقبال آفریدی صاحب کی غیرت خوابیدہ رہی ۔ ابھی 8مئی کو شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کا واحد نجی اسکول تباہ کر دیا گیا۔ اقبال آفریدی خاموش رہے۔ 2018ء میں تحریک انصاف میں شامل ہونے والے اقبال آفریدی برسوں سے پارلیمنٹ کا حصہ چلے آرہے ہیں۔ حیران کن طور پر ان کے تعارف میں تعلیم کا خانہ خالی ہے۔ اگر انہوں نے کوئی تعلیم پائی بھی ہو تو اہل وطن جانتے ہیں کہ 1970ء میں پیدا ہونے والے اقبال آفریدی نے کن اساتذہ سے کس نصاب تعلیم کی تحصیل کی ہو گی۔ ہماری اجتماعی نفسیات میں اس شرمناک رویے کے ڈانڈے بہت دور تک جاتے ہیں۔ 1939 ء میں سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ’پردہ‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی تھی جسے جماعت اسلامی کے احباب بہت بلند مقام دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کے پیش پا افتادہ حوالے انیسویں صدی کے چند غیر معروف مصنفو ں سے لیے گئے ہیں۔ سید مودودی بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کے فکری رجحانات سے قطعی نابلد تھے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد 29جنوری 1948کو پنجاب اسمبلی میں مسلم پرسنل لا کے مسودہ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے عبدالستار نیازی نے عورتوں کی آزادی ، بے پردگی اور غیر اسلامی طرز زندگی پر سیرحاصل تبصرہ کیا۔ ایک ہفتے بعد مولاناشبیر احمد عثمانی نے 27 فروری کوا سپیکر کو قرارداد جمع کرائی کہ ’معتبر علما اور دوسرے مسلمان مفکرین پر مشتمل ایک مجلس مشاورت قائم کی جائے جو شریعت اسلامیہ کے مطابق آئین ترتیب دینے کے لیے سفارشات پیش کرے‘۔ اسی کے تسلسل میں جمعیت علمائے اسلام کی پنجاب برانچ نے29 فروری کو مولانا داؤد غزنوی کی صدارت میں ایک قرارداد میں مطالبہ کیا کہ ’عورتوں سے قرآن پاک کے مطابق بذریعہ قانون حقیقی پردہ کرایا جائے‘۔ اس کے ردعمل میں 3اپریل 1948 ء کو بیگم لیاقت علی خان کی زیر صدارت اجلاس میں عورتوں کے بارے میں غیر پارلیمانی اور ہتک آمیز زبان کی سخت مذمت کی گئی۔ 15اپریل کو بیگم لیاقت علی خان نے روزنامہ امروز کو انٹرویو دیتے ہوئے عورتوں کے لیے پردہ لازمی قرار دینے کی پرزور مخالفت کی ۔اس پر ملاؤں نے ایوان وزیراعظم کے قریب جلسہ منعقد کیا جہاں بیگم لیاقت علی کے بارے میں لگائے گئے نعرے اخبار میں شائع نہیں ہو سکتے۔ ان مباحث کا حاصل یہ کہ قوم پون صدی سے عورت کے حقوق میں الجھی ہوئی ہے۔
مسلم لیگ نواز کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل اور پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے اقبال آفریدی کے خیالات کی شدید مذمت کی ہے لیکن اجتماعی زندگی میں ان رویوں کا اثر بہت دور تک جاتا ہے۔ 14اگست کو اسلام آباد کی ایک بارونق سڑک پر راہ چلتے میاں بیوی پر ایک ہجوم نے خاتون کا لباس قابل اعتراض قرار دے کر حملہ کر دیا۔ یہ 2007ء میں لال مسجد والے قضیے کے شاخسانے ہیں ۔ مناسب ہو گا کہ قومی اسمبلی ایک قرارداد کے ذریعے دستور کی شق 25 کا اعادہ کرے۔ اقبال آفریدی صاحب کو باور کرایا جائے کہ دستور میں شامل بنیادی حقوق میں دو طرح کی ضمانتیں دی گئی ہیں۔ کچھ حقوق کی فراہمی ریاست کے ذمہ ہے اور کچھ آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے جو شخصی انتخاب کے منطقے ہیں۔ ریاست کو قانون کی حد میں رہتے ہوئے کسی شہری کے لیے لباس کا کوئی مخصوص انداز مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ