شہید اسمعیل ہنیہ کا سیاسی سفر،فلسطین کے لئے جدوجہد

غزہ (صباح نیوز)حماس کے سربراہ اسمعیل ہنیہ 29 جنوری 1962 کو غزہ کے الشاتی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے، اس وقت عرب-اسرائیل جنگ جاری تھی اور یہ علاقہ مصر کے زیرِ تسلط تھا، انہوں نے ابتدائی تعلیم اقوامِ متحدہ کے اسکول سے حاصل کی، بعدازاں وہ 1987 اسلامک یونیورسٹی غزہ سے عرب لٹریچر میں گریجویٹ ہوئے۔تعلیم کے دوران اور اس کے بعد وہ مزاحمتی تحریکوں میں متحرک رہے، اسی سلسلے میں 1989 میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور وہ تین سال جیل میں رہے، 1992 میں رہائی کے بعد اسرائیلی قابض حکام نے اسمعیل ہنیہ سمیت حماس کے سینئر رہنماوں عبدالعزیز الرنتیسی، محمود ظہار، عزیز دوائیک و دیگر 400 کارکنان کو لبنان جلا وطن کردیا۔جلاوطن کارکنان جنوبی لبنان کے مرج الظہور میں ایک سال سے زائد عرصے تک مقیم رہے جہاں حماس کو میڈیا کی بھرپور کوریج ملی اور یہ عالمی سطح پر مقبول ہوئی۔1997 میں اسمعیل ہنیہ حماس کے مرکزی دفتر میں بھرتی ہوئے جہاں وہ جلد ہی اونچے تنظیمی درجوں پر ترقی کرتے رہے، گمان کیا جاتا ہے کہ چونکہ وہ اس وقت کے حماس رہنما شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھی تھے اس لیے انہیں حماس کے مرکزی دفتر میں عہدہ ملا۔

اسرائیلی افواج نے حماس کے بیشتر رہنماؤں کو نشانہ بنایا اور 2003 میں اسمعیل ہنیہ بھی اسرائیل کے میزائل حملے کی زد میں آئے لیکن اس میں ان کا ہاتھ زخمی ہوا۔دسمبر 2005 میں اسمعیل ہنیہ کو حماس کے تنظیمی انتخابات میں ممکنہ سربراہان کی فہرست میں شامل کیا گیا اور 2016 میں ہونے والے انتخابات میں خالد مشعل کے بعد اسمعیل ہنیہ حماس کے سربراہ بنے۔25 جنوری 2006 کو حماس کی تبدیلی اور اصلاحات کی فہرست میں فتح حاصل کرنے کے بعد اسمعیل ہنیہ کو 16 فروری 2006 کو وزیراعظم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ انہیں 20 فروری کو باضابطہ طور پر صدر محمود عباس کے سامنے پیش کیا گیا اور 29 مارچ 2006 کو اسمعیل ہنیہ نے بطور فلسطینی وزیراعظم عہدے کا حلف اٹھایا۔اپنے دورِ حکومت میں اسمعیل ہنیہ نے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو خط بھی لکھا کہ جس میں ان کے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فلسطین کے معاملات کے حوالے سے براہِ راست منتخب حکومت سے رابطہ کریں اور فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

تاہم امریکا نے اس خط پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور اسے نظرانداز کردیا گیا۔جون 2007 میں حریف جماعت فاتح پارٹی کے ساتھ پرتشدد تنازع کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس نے اسمعیل ہنیہ کو عہدے سے برطرف کردیا تاہم وہ غزہ کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے جہاں حماس نے اپنی غیرسرکاری حکومت قائم کی تھی اور غزہ کی پٹی کے تمام انتظامی امور حماس کے کنٹرول میں تھے۔2018 میں اسمعیل ہنیہ کو حماس کے سربراہ کی حیثیت سے عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔7 اکتوبر 2023 کو جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تب اسمعیل ہنیہ ترکیہ میں موجود تھے اور انہوں نے ٹیلی ویژن پر گفتگو کرکے حماس کے حملے کی وجوہات بتائیں جن میں مسجد الاقصی اور پناہ گزینوں کو خطرات کا حوالہ دیا گیا۔10 اکتوبر کو انہوں نے بیان دیا کہ جب تک جنگ ختم نہیں ہوگی حماس اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہیں کرے گا، ساتھ ہی کہا کہ فلسطینی اپنی آزادی کے لیے کسی طرح کی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے۔15 اکتوبر کو خبریں سامنے آئیں کہ سابق ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اسمعیل ہنیہ کو آمادہ کیا کہ وہ ترکیہ سے قطر چلے جائیں تاہم اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ وہ کس کے کہنے پر دوحہ منتقل ہوئے۔2 نومبر کو اسمعیل ہنیہ نے مشروط جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی اور ان کی شرائط یہ تھیں کہ اسرائیل انسانی بنیادوں پر امداد کی رسائی کو ممکن بنائے اور ساتھ ہی اقوامِ متحدہ کے دو ریاستی حل کو تسلیم کرے۔یاد رہے کہ رواں سال عیدالفطر کے موقع پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اسمعیل ہنیہ کے تین بیٹے شہید ہوگئے تھے۔

اسمعیل ہنیہ کے تینوں بیٹے ہازم، محمد اور عامر اپنی گاڑی میں جارہے تھے کہ اس دوران غزہ کے الشاتی کیمپ میں ان کی گاڑی پر اسرائیل نے بمباری کی جس سے ان کے تینوں بیٹے شہید ہوئے تھے۔اسرائیلی فوج کی بمباری میں اسمعیل ہنیہ کے 3 بیٹوں کے علاوہ 4 پوتے بھی شہید ہوچکے ہیں جن میں 3 لڑکے اور ایک لڑکی شامل تھی۔20 مئی 2024 کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ(آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر کریم خان کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت اسمعیل ہنیہ کے ساتھ ساتھ دیگر حماس رہنما اور اسرائیلی وزیراعظم کے لیے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کی گئی تھی۔فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسمعیل ہنیہ کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسمعیل ہنیہ کو یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا، یہ حملہ بزدلانہ کارروائی ہے، جس بدلہ لیں گے۔