ختم نبوت پر مکمل اورغیر مشروط ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا۔سپریم کورٹ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے قادیانی مبارک احمد ثانی کیس میں دائر 9درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر نظرثانی درخواستیں منظور جبکہ شکایت کنندہ کی جانب سے دائر درخواستیں مسترد کردیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی  کی جانب سے اُردو میں تحریرکیا گیا 27صفحات پر مشتمل فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردیا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ حضرت محمد ۖ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے جوقرآن وسنت کی متعدد خصوص ،بالخصوص سورة الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں درج ہے ۔ چنانچہ ختم نبوت پر مکمل اورغیر مشروط ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 260(3)میں بھی ختم نبوت پر مکمل اورغیر مشروط ایمان کو “مسلمان “کی تعریف کالازمی جزو قراردیا گیا ہے۔خود کو احمدی کہنے والوں کے مذہبی حقوق کے مسئلے پر مجیب الرحمان بنام حکومت پاکستان کے مقدمے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور ظہیر الدین بنام ریاست کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے5رکنی بینچ کے فیصلے کو لازمی نظیروں کی حیثیت حاصل ہے اورعدالتِ ہٰذا نے اپنے حکمنامہ مورخہ 6فروری 2024میں ان نظیروں سے انحراف نہیں کیا۔ حکومتِ پنجاب کی جانب سے دائر کی گئی نظرثانی درخواست نمبر 2بابت 2024کو منظور کرتے ہوئے قراردیا جاتا ہے کہ مذہبی آزادی کابنیاد ی حق ، جس کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے، “قانون، امن عامہ اوراخلاق کے تابع”ہے۔

مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں نظرثانی کی درخواست نمبر 3اوردرخواست نمبر4مسترد، اوردیگر درخواستیں نمٹائی جاتی ہیں۔ جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں لکھا ہے کی عدالت ان تمام دینی اداروں اورافراد کا شکریہ اداکرتی ہے جنہوں نے اس اہم مسئلے پر عدالت کی رہنمائی کے لئے اپنی تحریرات بھیجیں یا عدالت میں دلائل پیش کئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ 29مئی 2024کوفریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ بینچ میں شامل رکن جسٹس نعیم اختر افغان نے بدھ کے روز کھلی عدالت میں فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن نے کیسز کی سماعت کی اور سماعت کے آغاز پر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احمدرضا گیلانی، شکایت کندہ محمد حسن معاویہ اوردیگر علماء اس موقع پر کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ کسی بھی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کے لئے سپریم کورٹ کے اندر اورباہر پولیس کی بھاری نفری تعیناتی کی گئی تھی۔جبکہ مذہبی جماعتوں کے کارکنوں نے عدالت کے باہر نعرہ بازی بھی کی۔ تحریری حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان وہ ہیں جو قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کی آخری نازل کی ہوئی کتاب اورحضرت محمدۖ کو اللہ تعالیٰ کاآخری نبی مانتے ہوں۔ ختم نبوت کاعقیدہ قرآن شریف کی متعدد آیات سے ثابت ہوتا ہے جن میں سب سے واضح آیت سورة الاحزاب میں ہے۔ سورة الاحزاب کی آیت نمبر40میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد ۖ تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اورتمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ ۖکی متعدد احادیث میں یہ بات مختلف پیرایوں میں کہی گئی ہے۔ رسول ۖ نے فرمایا بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ایک اورحدیث میں نبی  ۖ نے فرمایا کہ میں سب کے بعد میں آنے والا ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ ایک اورحدیث میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ رسالت اور نبوت ختم ہوچکیں، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔ ایک اورحدیث میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اوراس میں ہرطرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اورمکان کوچاروں طرف سے گھوم کردیکھتے ہیں اورتعجب  میں پڑجاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟تومیں ہی وہی اینٹ ہوں اورمیں خاتم النبیین ہوں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام کی عمارت کو آپ ۖ نے ہی توہرلحاظ سے خوبصورت اورمکمل کیا ہے۔ قرآن وسنت نے یہ واضح کردیا ہے کہ حضرت محمد ۖ پر نبوت کے ختم ہونے پر ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا۔ امام غزالی  امت مسلمہ کے اس عقیدے کی تصریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ترجمہ :اس لفظ (خاتم النبیین)سے اوراس کے حالات کے قرائن سے امت مسلمہ نے اجتماعی طور پر یہ سمجھا ہے کہ آپ نے اپنے بعد کسی نبی کے اوررسول کے کبھی نہ آنے کی بات سمجھائی ہے ، اوریہ کہ اس کی اورکوئی تاویل نہیں ہے، نہ ہی اس کی تخصیص کی گئی ہے؛اس لئے اس کاانکار کرنے والا امت کے اجماع کامنکر ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973ء کی روسے بھی “مسلمان”کی تعریف میں ختم پر ایمان ضروری ہے۔ آئین کاآغاز اللہ تعالیٰ کے نام اوراللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے اقرارسے ہوتا ہے اورکہا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام اختیار کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقررکردی حدود کے اندر ایک مقدس امانت کے طورپراستعمال کریں گے ، اوریہ کہ ریاست اپنے اختیارات اوراقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے زریعے استعمال کرے گی۔ مسلمان اپنی انفرادی اوراجتماعی زندگی قرآن وسنت میں مذکور اسلامی تعلیمات کے مطابق بسرکرنے کاحق رکھتے ہیں اور غیر مسلم اپنے مذہب پر عقیدہ رکھنے اوراس پر عمل کرنے کے حقدار ہیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین نے ملک کانام “اسلامی جمہوریہ پاکستان “رکھا ہے اور تصریح کی ہے کہ “پاکستان کاریاستی مذہب اسلام ہے”۔آئین نے صدرِ پاکستان اوروزیرِ اعظم پاکستان کے لئے مسلمان ہونا ضروری قراردیا ہے۔ آئین نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ پاکستان میں رائج تمام قوانین کوقرآن وسنت میں مذکورہ اسلامی احکام سے ہم آہنگ بنایا جائے گا اوریہ کہ کوئی ایساقانون نہیں بنایا جائے گا جوان احکام سے متصادم ہو۔متعدد قوانین میں تصریح بھی کی گئی ہے کہ ان قوانین کی تعبیروتشریح قرآن وسنت میں مذکورہ اسلامی احکام کے مطابق ہوگی، اور قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء میں تمام قوانین کے لئے یہ عمومی اصول طے کیا گیا ہے۔ چنانچہ ماضیِ قریب میں سپریم کورٹ (عمل اورطریقِ کا)ایکٹ 2023ء کی آئین کے ساتھ مطابقت کے متعلق فل کورٹ نے فیصلہ کیا ، تواس میں اس اصول کی تصریح کی گئی کہ جہاں کسی قانون کی دوتعبیرات ممکن ہوں، توعدالت اس تعبیر کواختیار کرے گی جو قرآن وسنت میں مذکورہ اسلامی احکام اورآئین میں مذکورہ پالیسی کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔