اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ ضمانت قبل ازگرفتاری کے لئے ملزم کوہمارے سامنے پیش ہونا ہو گا، ملزم پہلے عدالت کے سامنے سرینڈر کرے،اُس کووی آئی ٹریٹمنٹ تونہیں دے سکتے۔ بلوچستان ہائی کورٹ سے درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری خارج ہونے پر ملزم کو گرفتار ہونا چاہیئے تھا۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے 24مئی 2024کو درخواست گزارکی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری خارج کی، دوماہ ہو گئے ہیں درخواست گزارگرفتارکیوں نہیں ہوئے۔ شرعی لحاظ سے بچوں کاخرچ اداکرنا والدکی ذمہ داری ہے، 17سالہ بیٹا کس طرح 8ہزار روپے میں گزارہ کرے گا۔ جبکہ عدالت میں لومیرج کرنے والے جوڑے کی جانب سے ایک کروڑ روپے حق مہرکرنے کاانکشاف ہوا ہے تاہم رختصی اورطلاق نہ ہونے کے باوجود خاتون کی جانب سے ماہانہ خرچ اور ایک کروڑ روپے حق مہر کی رقم کی ادائیگی کامطالبہ کیا گیا ہے۔جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ شادی شدہ زندگی شروع ہی نہیں ہوئی تو کس طرح خاتون میٹیننس اورحق مہر کی ادائیگی کامطالبہ کرسکتی ہے، وکیل آئندہ سماعت پربتائیں کہ محمڈن لاء اس حوالہ سے کیا کہتا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس نعیم اخترافغان کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 2بینچ نے سوموار کے روز سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 1میں کل 16کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے حسن المعاب کی جانب سے ریاست پاکستان اوردیگر کے خلاف قتل کیس میں ضمانت بعد ازگرفتاری کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی۔بینچ نے دلائل سننے کے بعد ملزم حسن المعاب کی ضمانت منظور کر لی۔ بینچ نے غلام مصطفی کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلاف ضمانت قبل ازگرفتاری کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت وکیل عائشہ تسنیم نے پیش ہوکربتایا کہ اس کیس میں افتخار احمد چوہدری وکیل ہیں ، انہیں آج صبح افتخار احمد چوہدری کی کال موصول ہوئی اورانہوں نے کہا وہ بیمار ہونے کی وجہ سے کیس میں پیش نہیں ہوسکتے۔ اس پر جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ضمانت قبل ازگرفتاری کے لئے ملزم کوہمارے سامنے پیش ہونا ہو گا، ملزم پہلے عدالت کے سامنے سرینڈر کرے،اُس کووی آئی ٹریٹمنٹ تونہیں دے سکتے، ملزم کہاں ہیں، ویڈیو لنک کے زریعہ لاہور سے یاسپریم کورٹ پرنسپل سیٹ پر پیش ہوں۔ جسٹس نعیم اخترافغان نے وکیل عائشہ تسنیم کوہدایت کی کہ ہم اس کو بریک کے بعد کے لئے رکھ لیتے ہیں آپ وکیل سے رابطہ کر ملزم کو پیش کریں۔ جب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تووکیل عائشہ تسنیم نے عدالت کو بتایا کہ ان کی وکیل سے بات ہوئی ہے
وکیل نے بتایا ہے کہ ان کا درخواست گزار سے کوئی رابطہ نہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ملزم ملتان کا ہے اوروکیل لاہور کا ہے، جمعرات کے روز وکیل ملزم کے ہمرہ سپریم کورٹ اسلام آباد یا لاہور سے ویڈیو لنک کے زریعہ پیش ہوں اوراگر وکیل ملزم پیش نہیں ہوتا تووکیل اس حوالہ سے بھی تیاری کرکے آئیں کہ کیا کرنا ہے۔ بینچ نے گل گلزار کی جانب سے قتل کیس میں پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلاف ضمانت بعد ازگرفتاری کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی۔جسٹس نعیم اخترافغان کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مقتول کی موٹر سائیکل، موبائل اور چھری بھی آپ سے برآمد ہوئی، مقتول کا گلہ کٹا ہوا ہے اور جسم پر تشدد کے نشان ہیں، یہ اندھا کیس ہے، ہم تفتیشی افسر سے پوچھتے ہیں۔ عدالت نے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل مرزا عابد مجید کو ہدایت کہ وہ ننکانہ صاحب پولیس سے کیس کا ریکارڈ منگوالیں ۔ عدالت نے کیس کی سماعت بدھ کے روز تک ملتوی کردی۔ بینچ نے عبدالرائوف کی جانب سے 4.8کلو گرام چرس برآمدگی کیس میں دائر ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں ریاست پاکستان کو اسپیشل پراسیکیوٹر اے این ایف کے توسط سے فریق بنایا گیا تھا۔ اے این ایف پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملزم پر فردجرم عائد ہوچکی ہے۔
جسٹس نعیم اخترافغان کاکہناتھا کہ کیس میں کل 3گواہ ہیں، شکایت کندہ کا بیان ریکارڈ ہونے دیں اس کے بعد درخواست گزارشکایت کندہ کے بیان کی روشنی میں دوبارہ ضمانت کے لئے اپلائی کرسکتا ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ 4.8کلو گرام ہاتھ سے چرس برآمد ہوئی ہے، ہم سے درخواست ضمانت خارج نہ کروائیں، شکایت کندہ کابیان ریکارڈ ہونے کے بعد دوبارہ درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری دائر کرسکتے ہیں۔ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔بینچ نے قتل کیس میں عبدالقدوس کی جانب سے حافظ اسراراحمدسنجرانی کے خلاف دائر درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پر سماعت کی۔جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ سے درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری خارج ہونے پر ملزم کو گرفتار ہونا چاہیئے تھا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ وکیل کامران مرتضیٰ کہاں ہیں اور ملزم کہاں ہے، دونوں سے کہیں سپریم کورٹ رجسٹری میں پیش ہوں ہم اس کیس کی وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے، عدالت نے سینیٹر کامران مرتضیٰ کے بھائی کوہدایت کہ یا وہ خود دلائل دیں یا کامران مرتضیٰ کو بلالیں۔ بعد ازاں کامران مرتضیٰ اپنے مئوکل کے ہمراہ سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں پیش ہوگئے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ یہ کیسے مطمئن کریں گے کہ یہ سی ڈی آر آپ کے فون نمبر کاہے، فوٹو ہیں کہ آپ سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔
جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ جج صاحب نے ضمانت منسوخی کی وجہ کیا بتائی ہے، واقعہ سے قبل مقتول کا کنسٹرکشن کے معانلہ ہر درخواست گزار سے جھگڑا ہوا تھا جس میں اعجاز، نثار اورشعیب زخمی ہوئے تھے اوراس حوالہ سے ایف آئی آربھی درج کروائی گئی تھی۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے 24مئی 2024کو درخواست گزارکی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری خارج کی، دوماہ ہو گئے ہیں درخواست گزارگرفتارکیوں نہیں ہوئے۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ کاکہنا تھا کہ ان کے مئوکل نے فوری طور پر 30مئی 2024کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرلیا تھا اور اپنے آپ کوسپریم کورٹ کے سامنے سرینڈر کردیا تھا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاسرکاری وکیل روبینہ بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیس کاریکارڈ منگوالیں اور تفتیشی افسر کو بھی کال کرلیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ پہلے کیس میں پی پی سی دفعات 324اور34لگائی گئی تھیںتاہم بعد میں شکایت کندہ حافظ اسرار احمد کے زخمی والد حاجی غلام نبی کے وفات پانے کے بعد پی پی سی کی دفعہ 302کاکیس میں اضافہ کیا گیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ اس کے مئوکل کو غلط طور پر کیس میں پھنسایا گیا کیونکہ واقعہ کے وقت درخواست گزار کوئٹہ میںموجود تھا جبکہ واقعہ خاران میںپیش آیا۔ سرکاری وکیل کاکہناتھاکہ سی ڈی آر ریکارڈ کی تصدیق نہیں ہوئی۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہناتھا کہ انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ سے ضمانت منسوخی کے فوری بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ ہرسماعت پر سپریم کورٹ میں پیش ہوگا۔ عدالت نے بلوچستان ہائی کورٹ کاحکمنامہ آئندہ سماعت تک معطل کرتے ہوئے سرکاری وکیل کوہدایت کہ وہ کیس کاریکارڈ پرنسپل سیٹ یا سرکٹ بینچ کوئٹہ میں پیش کریں۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعہ کے روز تک ملتوی کردی۔ بینچ نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے محمد احمد خان اور دیگر کے خلاف سروس اور اپ گریڈیشن کے معاملہ پر دائر درخواست پ سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشدین نواز قصوری پیش ہوئے جبکہ مدعا علیحان کی جانب سے مس شیریں عمران بطور وکیل پیش ہوئیں۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے کون پیش ہورہا ہے، کابینہ ڈویژن اور وزارت خزانہ کی نمائندگی ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کدھر ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل دونوں طرف سے پیش نہیں ہوسکتے، ملازمین کا تعلق وزارت دفاع سے ہے، ان کوآن بورڈ لئے بغیر کیسے فیصلہ دیں گے۔ عدالت نے کیس میں وزارت دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزیدسماعت دوہفتے کے لئے ملتوی کردی۔بینچ نے چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن ، اسلام آباد اورسیکرٹری وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈیشن ، حکومت پاکستان ،اسلام آباد اور دیگر کی جانب سے ڈاکٹر حمیرہ سکندر اوردیگر کے خلاف دائر دودرخواستوں پر سماعت کی۔جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نوشین فاروق کو اس کیس میں فریق ہونا چاہیئے ۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ قائمقام چیئرمین ایف پی ایس سی نے ممبر سے اختلاف کیا ہے، یہ تومعاملہ ریفری ممبر کے پاس جانا چاہیئے اوروہ تین ماہ میں فیصلہ کریں۔مدعا علیہ خاتون کے وکیل کاکہنا تھا کہ ان کی مئوکلہ کو 29سالہ کیریئر میں صرف ایک مرتبہ ترقی ملی ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ اگر مستقل چیئرمین آج ہیں توان کو معاملہ بھجوادیتے ہیں، اگر اکثریتی فیصلہ آجائے توہوسکتا ہے مدعا علیہ کی دادرسی ہوجائے۔ عدالت نے چیئرمین ایف پی ایس سی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دوہفتے کے لئے ملتوی کردی۔ بینچ نے محمد شعیب کی جانب سے بچوں کو خرچ دینے کے معاملہ پر نورفاطمہ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزا ر کی جانب سے عمران احمد ملک بطو ر وکیل پیش ہوئے۔
وکیل کاکہناتھاکہ فیملی کورٹ نے ابتدائی طور پر 8ہزار روپے فی بچہ خرچ مقرر کی اور قراردیا تھا کہ جب کیس کافیصلہ ہو جائے گاتویہ رقم 15ہزارروپے فی مہینہ ہو گی، ان کے مئوکل دو بچوں کو15کی بجائے 10،10ہزار خرچ دے سکتے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزاراورمدعاعلیہ دونوں نے دوسری شادی کرلی ہے، درخواست گزار کے دوسری بیوی سے بھی 3بچے ہیں، وہ 15ہزارکدھر اداکرسکتا ہے۔وکیل کاکہناتھا کہ بیٹے کی عمر17سال اور بیٹی کی عمر 22سال ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ تعلیم بھی مہنگی ہوگئی ہے ، بچوں کی فیس بھی اداکرنی ہے، ہم دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ والد کی آمدن میں اضافہ کرے ۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ شرعی لحاظ سے بچوں کاخرچ اداکرنا والدکی ذمہ داری ہے،17سال کا بیٹا 8ہزارروپے میں کیسے گزارا کرے گا۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ نے کہا ہے کہ درخواست گزار کااچھا کاروبار ہے۔ جبکہ درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ مالدارخاتون ہیں اوروہ سرکاری ٹیچر ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت کہ آئندہ سماعت پر تفصیل پیش کریں کہ کتنے عرصہ کی رقم واجب الادا ہے۔
عدالت نے درخواست پر مدعا علیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت دوہفتے کے لئے ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے غلام فرید کی جانب سے مسمات خالدہ بی بی اوردیگر جبکہ خالدہ بی بی کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج اوکاڑہ اوردیگر کے خلاف ماہانہ خر چ اور حق مہر کی رقم کی ادائیگی کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ شادی شدہ زندگی شروع ہی نہیں ہوئی تو کس طرح خاتون میٹیننس اورحق مہر کی ادائیگی کامطالبہ کرسکتی ہے، وکیل آئندہ سماعت پربتائیں کہ محمڈن لاء اس حوالہ سے کیا کہتا ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ حق مہر ایک کروڑ روپے رکھا گیااور لکھا گیا کہ خاتون کے مطالبہ پر شوہر اداکرے گا۔جسٹس نعیم اخترافغان کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کی لو میرج مہنگی نہیںپڑگئی، درخواست میں لکھا ہے کہ لومیرج کی ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔ بینچ نے حق نواز کی جانب سے مسمات صفیہ اوردیگر کے خلاف بچوں کی تحویل کے معاملہ پر درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ ان کے دوبچے ہیں جو کہ والدہ کے پاس ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ دوماتحت عدالتوں نے ایکس پارٹی کیس کافیصلہ کیااور ہائی کورٹ نے ان فیصلوں کو کالعدم قراردے دیا، بچوں کی تحویل کے معاملہ پر کیا ہم ایک پارٹی ڈگری کو برقراررکھیں گے۔ عدالت نے گارڈین جج کو ہدایت کہ وہ کیس کے ریکارڈ کے حوالہ سے رپورٹ پیش کریں کہ کیوں ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔ ZS