اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ ساری کرنسی افغانستان اسمگل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے افغانستان میں ڈالر سستااور پاکستان میں ڈالر مہنگا ہے۔ جبکہ عدالت نے ایک لاکھ سعودی ریال اورایک لاکھ اماراتی درہم افغانستان اسمگل کرنے والے ملزم کو کیس سے عدم شواہد کی بنیاد پر بری کردیا۔ جبکہ عدالت نے 98کیسز میں ضمانت حاصل کرنے والے ملزم کی 1360گرام چرس برآمدگی کیس میں درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری نمٹاتے ہوئے ایک ماہ کے اندر ٹرائل کورٹ کوفیصلہ کرنے کاحکم دے دیا۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ غیر ملکی کرنسی اگر مقررہ مقدار سے زیادہ پکڑی جائے تووہ ضبط کی جاسکتی ہے، جرم کون سابنتا ہے۔
ہرکیس میں ویڈیو کی ضرورت نہیں ہوتی۔جبکہ جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق کوئی عذر نہیں ، کل کوقتل کرکے آجائیں اورکہیں مجھے پروسیجر نہیں پتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس ملک شہزاداحمد خان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے سوموار کے روز 12کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے1100گرام ہیروئن برآمدگی کیس میں گرفتار ملزم حسنین حیدر عرف لاہور ی کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔درخواست میں ریاست پاکستان کو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اوردیگرکے توسط سے فریق بنایا گیا تھا۔عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی خاتون وکیل کی کیس میںدلائل دینے کی درخواست منظور کرلی۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا درخواست گزار کی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گرائونڈ بتادیں کیوں آپ کو ضمانت دی جائے۔ اس پر خاتون وکیل کاکہنا تھا کہ 1100گرام ہیروئن برآمد ہوئی ہے، کوئی ویڈیو موجود نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہرکیس میں ویڈیو کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہناتھا کہ ہرکیس میں کہاں ویڈیو کی ضرورت ہوتی ہے ۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ یہ بتانا ہوتا ہے کہ ریکوری ہوئی کہ نہیں، محفوظ حوالگی ہوئی کہ نہیں، شواہد کو محفوظ کیا گیا اورمحفوظ طریقہ سے جمع کروایا گیا کہ نہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل کوہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر مناسب تیار ی کرکے آئیں۔ وکیل کاکہناتھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 4ماہ میں کیس ختم کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم ابھی تک ایک گواہ کابیان بھی ریکارڈ نہیں ہوسکا۔
اس پر جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ اس کے لئے آپ کو ہائی کورٹ جانا پڑے گا۔ عدالت نے درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔بینچ نے محمد ساجد کی جانب سے 1360گرام چرس برآمدگی کیس میں دائر ضمانت بعد ازگرفتاری درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں ریاست پاکستان کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزار کی جانب سے لاہور سے ویڈیو لنک کے زریعہ ذولفقار علی ڈھڈی بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب مرزاعابدمجید اور کیس کے تفتیشی پیش ہوئے۔ وکیل کاکہناتھا کہ 1360گرام چرس برآمدگی ہوئی۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ صرف 1360گرام ، کوئی 3یا4ہزارکلو گرام ہوتی تو کوئی بات تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میں کوئٹہ میں بطور وکیل پریکٹس کررہا تھا توایک ملزم کے خلاف 3کلو گرام منشیات برآمدگی کیس میں فرد جرم عائد ہوئی، اس پر ملزم کاکہناتھا کہ پراسیکیوٹر غلط بیانی کررہے ہیں، 5کلو گرام منشیات برآمد ہوئی تھی۔ مرزاعابد مجید کا کہناتھا کہ ملزم پر 99کیسز ہیں جن میں سے اکثریت چوری کے مقدمات کی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 98مقدمات میں ضمات مل گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے پھنسانے کی پوری کوشش کی مگر وہ پھنس نہیں رہا۔مرزا عابدہ مجید کاکہنا تھا کہ آج بھی کیس کی سماعت ہے اور شہادتیں ریکارڈ ہورہی ہیں اس لئے عدالت ٹرائل مکمل کرنے کے لئے ایک ماہ کاوقت دیدے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم ضمانت دے دیتے ہیں، 30دن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت دے دیتے ہیں۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ آپ کی پولیس سے کیا دشمنی ہے یاتوکسی پولیس والے کاقتل کیا ہو۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ ملزم ترقی کررہے ہیں اور چوری سے منشیات فروخت پر آگئے ہیں۔ مرزاعابدہ مجید کاکہنا تھا کہ 2018-19سے ملزم کے خلاف کیسز چل رہے ہیں اورابھی تک کسی کیس میں سزانہیں ہوئی۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ یہ ایماندرارآدمی ہے 100کیسز میں ضمانت لے چکا ہے۔ عدالت نے پولیس کے تفتیشی کوہدایت کہ وہ آکر چرس برآمدگی کے حوالہ سے بتائے۔اس پر پولیس کے تفتیشی کاکہنا تھا کہ مخبر نے اطلاع دی کہ ملزم چوری کے لوڈر رکشہ کے ساتھ پرانا راوی پُل پر منڈی کے ساتھ بیٹھا ہے، رکشہ گجرات سے چوری کیا گیا تھا، ملزم سے چرس برآمد ہوئی، ملزم منڈی میں چرس فروخت کرتا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کوئی فرضی گاہک بھی بنایا کہ نہیں۔ پولیس تفتیشی کا کہنا تھا کہ مخبر نے اطلاع دی کہ بندہ اِدھر بیٹھا ہوا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ریکوری کس کے حوالہ کی، سیف کسٹڈی ہے کہ نہیں۔ پولیس تفتیشی کاکہنا تھا کہ لوڈر رکشہ گجرات پولیس لے گئی۔ عدالت نے ایک ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہ ضمانت بعد ازگرفتار ی نمٹادی۔
جبکہ بینچ نے جائیدادواللہ کی جانب سے غیرملکی کرنسی برآمدگی کیس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کے توسط سے پانچ سال قید بامشقت کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے استغفراللہ بطور وکیل پیش ہوئے۔ جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔وکیل کاکہنا تھا کہ لنڈی کوتل کاباشندہ ہوں، میرا پاسپورٹ لے لیا گیا تاہم عدالت میں جمع نہیں کروایا گیا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ میرے مئوکل کاسمیٹکس خریدنے افغانستان جانا چاہتے تھے، 6جون 2017کو میرے مئوکل کسٹم حکام سے افغانستان جانے کے حوالہ سے معلومات لینے گئے کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا۔وکیل کاکہنا تھا کہ ایک لاکھ سعودی ریال اورایک لاکھ اماراتی درہم میرے مئوکل کے پاس موجود تھے تاہم وہ کوئی کرسنی اسمگلنگ نہیں کررہا تھا۔سرکاری وکیل کاکہناتھا کہ کسٹم حکام نے مشین کی جانب سے شک کرنے پر درخواست گزار کی جانب سے پائوں میں چھپائی گئی غیر ملکی کرنسی برآمد کی تھی۔ جسٹس جمال خان کاسرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بتائیں کرنسی نوٹس کہاں پیش کئے، کتنے ریال اورکتنے درہم تھے، یہ توہوا میں کرنے والی بات ہے، اتنی چرس تھی ڈال دو۔ وکیل استغفراللہ کاکہنا تھا کہ میرے مئوکل کی لنڈی کوتل میں کاسمیٹکس کی دوکان تھی جبکہ طور خم ریلوے اسٹیشن پر اپنی دوکانیں ہیں۔
وکیل کاکہناتھاکہ میں ریکوری مانتا ہوں، اسی بازار میں میری دوکانیں ہیں۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کا کہنا تھا کہ خود درخواست گزار مان رہے ہیں کہ میں جارہا تھا مجھے قانون کاپتا نہیںتھا، کیوں کرنسی لے کر جاررہا تھا، کسٹم ایکٹ میں کم ازکم سزاکیا ہے وہ کردیتے ہیں۔وکیل کاکہنا تھا کہ میں 6ماہ سے زیادہ سزاکاٹ چکا ہوں۔ وکیل کاکہناتھا کہ 20جون2017کو کسٹم ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی۔جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہناتھاکہ پاکستانی کرنسی کتنی بنتی ہے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہناتھاکہ کم ازکم ہم 3سال یا2سال کرسکتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ کسٹم ایکٹ یا فارن کرنسی ایکٹ کے تحت سزادیں، اگر کسٹم ایکٹ کے تحت سزادی ہے تویہ ثابت کرنا ہوگا کہ اسمگلنگ کررہا تھا، غیر ملکی کرنسی اگر مقررہ مقدار سے زیادہ پکڑی جائے تووہ ضبط کی جاسکتی ہے، جرم کون سابنتا ہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے والدین آپ کے پیدا ہوتے ساتھ ہی استغفراللہ کہہ دیا۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ والدہ حافظ قرآن تھیں اور قرآن مجید بچوںکو پڑھاتی بھی تھیں انہوں نے نام رکھا اور والد نے اعتراض نہیں کیا۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ ساری کرنسی پاکستان سے اسمگل ہوجاتی ہے ، افغانستان میں ڈالر سستا ہے اور پاکستان میں مہنگا ہے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ ایک کروڑ مالیت کی غیر ملکی کرنسی کی اسمگلنگ پر کم ازکم3سال قید کی سزا ہے اورزیادہ سے زیادہ 10سال قید کی سزاہے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد کاکہنا تھا کہ قانون کے مطابق کوئی عذر نہیں ، کل کوقتل کرکے آجائیں اورکہیں مجھے پروسیجر نہیں پتا۔ وکیل کاکہنا تھا کہنا تھا کہ برآمد ہونے والی غیر ملکی کرنسی کی مالیت 50لاکھ روپے بنتی ہے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاسرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے کہنا تھا کہ آپ کاکیس ثابت نہیں ہوتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے رقم عدالت میں جمع کروانا تھی ، فارن کرنسی ایکٹ کی دفعات لگنی چاہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میں اورچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان کے ضلع لورالائی میں جیل کے دورے پر گئے توہم نے ایک قیدی سے پوچھا آپ نے کیا جرم کیا ہے تواس نے بتایا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا،مجھ سے کلاشنکوف برآمد ہوئی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ وہاں پر کلاشنکوف کوکوئی جرم نہیں سمجھتے ۔ عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے درخواست گزار کو کیس سے بری کردیا۔ عدالت نے قراردیا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں۔جسٹس ملک شہزاداحمد خان کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنے مئوکل سے کہیں کہ استغفراللہ کی بہت زیادہ تسبیح پڑھیں۔