پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔
ہم نے جمعرات کو آرزو کی تھی۔
بن کے رہے گا مستحکم جمہوری پاکستان
جمعہ 12 جولائی کی دوپہر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے سے ایک مستحکم جمہوری پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ پاکستان کے عوام نے تو 8 فروری کو ہی مستحکم جمہوری پاکستان کی روح کو اپنے ووٹ سے تقویت دی تھی۔ عوام کے اس فیصلے کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ،حکمران طبقوں نے، مقتدرہ نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ فارم 45 کی جگہ فارم 47کو مسلط کیا گیا۔ اپنے عوام کی اکثریت کے اس فیصلے کو ججوں کی اکثریت نے تسلیم کر لیا۔ ساری در پردہ ملاقاتیں، سارے خفیہ معاہدے پہلے پاکستان کے عوام نے ناکام بنائے، اب جسٹس منصور علی شاہ کی قیادت میں 8ججوں نے وہ سارے ناکے توڑنے کا اعلان کردیا۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر تبادلہ خیال کا دن، عصر کے بعد محلے والوں سے مسائل جاننے اور دکھ بانٹنے کا وقت۔
پہلے بھی تاریخ کے کئی موڑوں پر آوازیں بلند ہوئی ہیں کہ پاکستان بچ گیا ۔ پاکستان کو بچالیا گیا۔ لیکن 12 جولائی کو ایک طویل عرصے تک پاکستان کو حقیقی معنوں میں بچانے کا دن کہا جائے گا۔ اس مختصر فیصلے نے ہی یہ نوید دی ہے کہ 1985 میں جن غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے پاکستان میں سیاسی جماعت کے کردار کو غیر فعال کرنے کی بنیاد رکھ کر پاکستانی سماج کو جاگیرداروں، برادریوں،سرداریوں اور سرمایہ داریوں کے حوالے کردیا گیا تھا۔ سیاسی پارٹیوں پر با اثر افراد کی بالادستی کا دوبارہ آغاز کیا گیا تھا۔ 12جولائی کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف کو ایک پارٹی تسلیم کرکے جمہوریت کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ آج کے فیصلوں میں سنجیدہ دردمند پاکستانیوں، غیر ملکی قونصل خانوں کی دہلیزوں پر ویزے کے حصول کیلئے کھڑے نوجوانوں اور دوسری طرف عمر کے آخری حصے میں کڑھتے، بڑبڑاتے مجھ جیسے اخباری بوڑھوں کیلئے خوش ہونے اور سمجھنے کیلئے بہت سے خوشگوار مقامات ہیں۔ تحریری فیصلے جب آئیں گے تو گویا 1973کے آئین کی دوبارہ تشریح کی جائیگی۔ آئین میں جمہوری روح بحال کی جائے گی تو صرف پاکستان ہی نہیں صرف جنوبی ایشیا نہیں بلکہ پوری آزاد جمہوری دنیا کیلئے یہ قابل قدر، لائق غور، آئینی، قانونی، عمرانی دستاویزیں ہوں گی۔ آنے والی نسلیں ان اوراق میں جان لیں گی کہ کس کی استقامت سے ساری بازی پلٹ گئی۔وہ لوگ کون تھے،جو عوام کی رائے کے اظہار میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، جمعہ کو کچھ ادارے سرخرو ہوئے۔ کچھ روسیاہ۔
8ججوں کی اکثریت نے اپنے مطالعے، مشاہدے، آئین کی تفہیم، آئین کی روح سے سرشاری کو اپنا اصول قرار دیتے ہوئے ایسے بحرانوں کے سابقہ بھیانک نتائج سے معاشرے کو بچالیا ہے۔
درخواست سنی اتحاد کونسل نے دی ہے لیکن فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کے حق میں ہوا۔ اپریل 2022 سے جس طرح جمہوریت، انتخابات کے نام پر ایک شخصی حکمرانی کی جارہی تھی۔ آزادی اظہار کے سب راستے بند کرکے ناکے لگائے جارہے تھے۔ 1985سے باریاں لینے والی پارٹیاں، اس آئین کش کھیل میں جس فراخدلی سے شریک ہوکر رضاکارانہ رسوا ہورہی تھیں اور تحریک عدم اعتماد سے پیدا ہونے والا اخلاقی، سماجی، سیاسی، قانونی، اقتصادی بحران جس طرح اپنی شاخیں پھیلارہا تھا۔ واہگہ سے گوادر تک 24کروڑ چہرے اترے ہوئے تھے۔ غربت کی لکیر سے نیچے دس کروڑ سے زیادہ جس اذیت، بے بسی اور اتھاہ مایوسی کا شکار تھے۔ اس میں ملکی مفاد کا تقاضا صرف یہ نہیں تھا کہ ٹیکنیکل بنیادوں پر درخواستیں نمٹادی جائیں۔ جیسے انتخابی نشان کے سلسلے میں فیصلہ صادر کیا گیا۔ جو ان ساری انتخابی، آئینی، سیاسی پیچیدگیوں کا سبب بنا۔ قوم کو سپریم کورٹ کے ان 8 ججوں کا ہمیشہ ممنون و شکر گزار رہنا ہوگا کہ انہوں نے ملک کو مجموعی طور پر اس پیچیدہ اور خمدار بحران سے نکالنے کیلئے آئین کی روح سے اپنے آپ کو سرشار رکھا۔ اور صورت حال کا ہمہ گیر جائزہ لیا کہ معاملات کو الجھانے والی بنیاد کی شناخت کرکے ایسا فیصلہ دیا جائے جس سے لاہور سے کوئٹہ تک عوام کے دل چیرتی مایوسی کا خاتمہ ہو۔
پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنا ہی اس وقت سارے آئینی، سیاسی، قانونی، اخلاقی تنازعات کا تصفیہ تھا اس پارٹی کے ساتھ جو بھی ناانصافیاں مختلف اداروں بالخصوص الیکشن کمیشن کی طرف سے ہوئی ہیں۔ ان کی نشاندہی ضروری تھی۔
اس فیصلے کے بعد اب عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ پہلے پاکستان تحریک انصاف کے جوش کا امتحان تھا۔ اب اس کے تدبر کی آزمائش شروع ہوتی ہے۔ جس مستحکم جمہوری پاکستان کی عمارت کا سنگ بنیاد سپریم کورٹ نے رکھ دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان،ان کے رفقا، پی ٹی آئی کے عہدیداروں، ماہرین قانون اور ماہرین اقتصادیات۔ اب سب پر یہ ذمہ داری آپڑی ہے کہ مستحکم جمہوری پاکستان کے مقام کے آئندہ مراحل کیسے طے کیے جائیں۔ 1985 سے باریاں لینے والی سیاسی اور فوجی حکومتوں کی جن پالیسیوں سے موجودہ اقتصادی، زرعی، تجارتی، ناکامیوں نے جنم لیا ہے۔ اس میں اولیں ذمہ داری تو اربوں ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کے طریقے طے کرنا ہے۔ ملک میں اپنی صنعتی، معدنی، زرعی پیداوار میں اضافہ، قانون کا یکساں نفاذ کیسے۔ اشرافیہ تو پاکستان تحریک انصاف میں بھی ہے۔ دوسری پارٹیوں کی طرح یہاں بھی ایک طبقہ مخلص سیاسی وفادار کارکنوں کا ہے۔ ایک حلقہ امرا رؤسا اور جاگیرداروں کا ہے۔ نظم و ضبط کی کمی ہے، ان دو اڑھائی سال میں پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی کارکنوں پر بہت ظلم ہوا ہے۔ استحصال ہوا ہے۔ ملک میں اخلاقی اقدار پامال کی گئی ہیں، غیر آئینی حکومتوں کو برقرار رکھنے میں آئین، قانون کی خلاف ورزیاں عام رہی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نے اندرونی انتخابات جمہوری انداز میں نہ ہونے کی سزا بہت زیادہ بھگتی ہے۔ اس لیے جہاں اس فیصلے پر اللہ تعالی کا شکر بجالانا چاہئے۔ سمندر پار پاکستانیوں کا ممنون ہونا چاہئے۔ وہاں سب سے زیادہ پارٹی کے عام سیاسی کارکنوں کے حضور اظہار تشکر ناگزیر ہے۔
پاکستان کے مالک عام پاکستانی ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ اذیت اور مصیبت وہ جھیل رہے ہیں، اداروں کی کشمکش، حکمراں طبقوں میں تصادم سے سب سے زیادہ وہ متاثر ہورہے ہیں۔ مہنگائی جو یقینا حکمرانوں کی پیدا کردہ ہے۔ اس سے عام پاکستانی کی زندگی اجیرن ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی کی استقامت، تحمل بھی لائق تحسین ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب عام پاکستانیوں کی نظریں اڈیالہ جیل پر ہیں۔ 24کروڑ پاکستانیوں کے سامنے اب پی ٹی آئی کا طویل المیعاد روڈ میپ کم از کم 15سالہ لائحہ عمل آنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے اندرونی بیرونی، اقتصادی، تجارتی، مسائل کا حل کیسے کرے گی۔ اداروں سے اس کے تعلقات کیسے ہوں گے۔ ایک مستحکم جمہوری پاکستان کی منزل تک کن راستوں سے پہنچے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ