سوا تین سال بعد، روز تاریخیں پڑنے، بھاری بھاری فائلیں سامنے رکھنے اور اس پر کچھ بھی کیس بڑھنے کے لیے، کوئی نئی تفتیشی رپورٹ نہ ہونے پر، اگلی تاریخ پڑ جانی، ایسے حالات میں جوابدہ کون ہے عدالتیں کہ وکیل کہ نامکمل تحقیق کہ فیصلہ کرنے اور کروانے والوں کی سیاسی چالیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ایک مقدمہ میں انجام کو نہ پہنچنے والے، کچھ دن اندر، باہر ہوتے رہے کچھ لوگ اپنے عقیدت مندوں کے طفیل بجائے جیل کے اسپتال میں سالہا سال رہے۔ البتہ اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق، اندر رہے کہ باہر، منظور شدہ یومیہ اور ماہانہ مشاہرہ حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ گویا رند کے رند ہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ ہر ممبر نے گریبان میں جھانکے بغیر، نصیبو لال کے لہجے میں نامعقول باتیں اس طرح بے سری کیں جیسے وہ معصوم صوفی عابدہ پروین کی گنڈے دار شاگرد ہوگئی ہے۔ حیف اس کی معصومیت پر۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے، سوال کروانے والے، مدافعت کرنے والے اور جرح کرنے والوں کی بے سری عدالتی کارروائی ہے کہ عمران خان کی ’’کوئی امید بر نہیں آتی‘‘۔ عدالتوں کی طرح، موسیقی کی بھی آخری امید کوک اسٹوڈیو تھا، وہ بھی گیا۔ ’’اب لکیر پیٹا کر‘‘۔ احمد جواد کی شکل دیکھ کر لگتا تھا وہ تھانے سے بھاگا ہوا، صرف ایک بات کررہا ہے کہ ’’میں نے کئی دفعہ ملاقات کے لیے وقت مانگا، نہیں ملا، جس پر غصہ ہے‘‘ اب لگتا ہے کہ گاڑی ریورس چلنے لگی ہے۔ اچھی طرح گھوم پھر کے خوب کھاپی کے شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ میری جان چھوڑو حالانکہ ٹیکس لگانے والے وہی تھے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے کاغذات ڈھونڈتے رہے۔ اور آخر کو کچھ نہیں ملا۔ میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ یہ سب نہائے دھوئے ہیں بلکہ وہ بھی اُسی گنگا میں نہائے ہیں جس میں آج کے حکمران شام کو 5بجے سے رات گیارہ بجے تک۔ اس کے بعد میں سو سو صفائیاں دیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب تو خزانے، نچلے درجے کے ملازمین کے گھروں سے اس تعداد میں نکل رہے ہیں کہ گننے والی مشینیں دم توڑ گئیں اور وہ سرمایہ بھی نکلا کھدائی کے دوران۔ یہاں بھی کوئی ایک کہانی ہو تو صبر کرلیں۔ اب جبکہ عالمی تجزیئے میں کرپشن میں ہم 140ویں نمبر پر پہنچ چکے ہیں تو حیرانی کس بات کی۔ جب چار سال بعد، اسحاق ڈار کی غیر موجودگی کو بار بار طعنہ زن کیا گیا۔ بی بی سی پر ان کے انٹرویو پر بہتے شرمندگی کے پسینے کو ساری دنیا نے دیکھا۔ روز، نواز شریف کے ساتھ اندر باہر جاتے دیکھا۔ یہ سب ہوتا رہا۔ اچانک خبر آئی کہ الیکشن کمیشن نے ان کو بطور سینیٹر بحال کر دیا ہے۔حیرانی پہلی دفعہ جہانگیر ترین کے جانے پر ہوئی تھی۔ پھر تو آئے دن کوئی آتا اور کوئی جاتا۔ کوئی نیا نمونہ داخل ہوتا۔ آخر کو کابینہ کی میٹنگ میں وزیر دفاع نے بڑے رعب سے کہا ’’ہم نےآپ کو وزیراعظم بنایا‘‘۔ جواباً وزیر اعظم نے سارے پاکستانیوں کو غصے میں کہا ’’میں نکلا تو اور خطرناک ہو جائوں گا‘‘۔ یہ سن کر شہزاد صاحب نے جہاز میں سیروں کا دروازہ بند کیا اور جو لوگوں نے پوچھا کہ ان کی شہریت کہاں کی ہے تو سناٹا ہی رہا۔ بہرحال تین سال تک ان کی آنیاں جانیاں دیکھتے رہے۔
انصاف کی آئینہ گری تو یہ ہے کہ سارے زمانے نےوہ وڈیو دیکھی ہےجس میں ظاہر جعفر، نور مقدم پر تشددکررہا ہے۔ اب اتنے عرصے بعد پولیس کہہ رہی ہے کہ اس کے ہاتھ، چاقو اور پینٹس پر کوئی داغ نہیں تھا۔ ظاہر جعفر کی روز روز کی ایکٹنگ اپنی جگہ۔ مگر پولیس کا کمال اور بدلا ہوا انداز دیکھیں کہ کس طرح، سیانے اس سیدھے سادے کیس کی اذیت پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اب ایک اور منظر، خود چیف منسٹر پنجاب کے علاقے میں سات دفعہ کمشنر بدلے گئے۔ پنڈی روڈ منصوبے پر خرچ کے علاوہ مری کی برفباری، 15افسروں کو لے بیٹھی۔ اس طرح پولیس اور دیگر محکموں میں، آئے دن تبادلے، روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ میں چونکہ سرکار کی ملازم رہی ہوں، جانتی ہوں کہ کسی بھی افسر کا تبادلہ ہو تو اُسے تبدیلی کے اخراجات، فیملی اور گھر کا سامان شفٹ کرنے کے پیسے بھی دینے ہوتے ہیں۔ بتایئے تو گن کر کہ ان تین سال میں کس قدر اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے۔ اس کا بجٹ کہاں سے نکلا ہوگا؟ پھر ہمارے وزیر خارجہ، پتہ نہیں کس عجلت میں ہیں کہ ہر ممکن ملک جن میں اسپین اور اٹلی بھی شامل ہیں، وہ آئے دن معلوم نہیں کن مقاصد کے لیے دورے کرتے ہیں جبکہ ان ممالک میں کورونا بہت پھیلا ہوا ہے۔ اب وزیراعظم کو بھی وزیروں کے ہمراہ دورۂ چین کرنے میں کون سے فائدے نظر آرہے ہیں کہ سی پیک تو جام کھڑا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں ہمارے صدرِ مملکت بھی مع بیگم کافی دورے کرچکے ہیں پاکستان کی معیشت اور تجارت کو اس کا کتنا فائدہ ہوا؟ یہ اندازہ بھی بجٹ اور وہ بھی منی بجٹ میں شامل کرلیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ ہم کرپشن میں 140ویں نمبر پر کیسے پہنچے ہیں۔ اب تک ہماری دوست ڈاکٹر ثانیہ نشتر، بھوکوں کو کھانا کھلاتی رہی ہیں۔ اب وہ بچوں کی تعلیم کی جانب متوجہ ہوئی ہیں۔ ان کی اہلیت اور محنت سے انکار نہیں مگر یہ تو بتائیں، سندھ کے ہزاروں اسکولوں کی اول تو بلڈنگ ہی نہیں (ایسا ہی منظر دوسرے صوبوں میں ہے) اور جہاں اسکول کی عمارت ہے، وہاں علاقے کے نمبردار کی بھینسیں بندھی ہیں۔ کوئی بیس برس ہوئے، امریکیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ دور افتادہ علاقوں میں وہ اسکولوں کی چار دیواری بنائیں گے اور لڑکیوں کے لیے باتھ روم بنائیں گے۔ یقیناً خرچہ تو ہوا ہوگا مگر ابھی تک ایک کمرے میں پانچ کلاسیں، ایک ٹیچر کا اصول ہے۔ بلوچستان سے لے کر ہر صوبے میں یہی طریقہ تعلیم ہے۔ اب بتائیں کہ ڈھائی کروڑ بچے جوبالکل ناخواندہ ہیں، ان کی تعلیم کا خرچ، عمارتیں اور استادوں کی تنخواہیں، کہاں سے نکلیں گی۔ کتنے ہزار ماسٹر پاس لڑکے، لڑکیاں ملازمتیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کی خدمات حاصل کریں تاکہ ڈھائی کروڑ بچوں میں سے کم از کم ایک کروڑ تو پڑھ جائیں۔ ایک تو کامیابی کا ستارہ چمکے۔