آئیے مل جل کر مہنگائی کو پسپا کریں…تحریر محمود شام


گوادر سے واہگہ تک مہنگائی نے بلا امتیاز نسل و رنگ و زبان ہر پاکستانی کی نیندیں اڑادی ہیں۔ اس عالم میں وزیر اعظم کی طرف سے اس پندرھواڑے میں پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے انکار بہت خوشگوار لگا ہے۔ حالانکہ پیٹرول کی موجودہ قیمت بھی متوسط طبقے اور تنخواہ دار لوگوں کے لیے کڑا بوجھ ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سب عمران خان کا کیا دھرا ہے اور وہی اسے ختم کرسکتا ہے۔ یقیناً یہ حکمرانوں کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان کی اقتصادی پالیسیاں ہی افراطِ زر کا سبب ہوتی ہیں۔ ان کے ذمہ دار محکموں کی مارکیٹوں، منڈیوں سے عدم توجہی تاجروں، آڑھتیوں اور ٹھیکیداروں کو بے مہار کردیتی ہے۔ لیکن پاکستانی معاشرہ تاریخ یا جغرافیے میں کوئی پہلا معاشرہ نہیں ہے جسے مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہاں۔ یہ اس لحاظ سے پہلا معاشرہ ضرور ہے کہ یہ مہنگائی کا مقابلہ کرنے میں وہ کچھ نہیں کررہا جو دوسرے معاشروں میں لوگ اپنے طور پر کرتے ہیں۔ صارفین کی مزاحمت منافع خوروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتی ہے۔

میں پورے وثوق سے سمجھتا ہوں کہ ہم پاکستانی مل جل کر مہنگائی کو پسپا کرسکتے ہیں۔میں نے اپنے احباب، اپنے قارئین سے اس مشکل وقت میں رہنمائی کی درخواست کی۔ میں کوئی اکانومسٹ نہیں ہوں۔ یہ تلخ حقیقت جسے مہنگائی کہتے ہیں، لفاظی اور شاعری سے پسپا نہیں ہوسکتی۔ ایک درد مند نے نام نہ لکھنے کی شرط کے ساتھ مشورہ دیا کہ اقتصادی ماہرین زیادہ تر قیمتوں پر سرکاری کنٹرول کے خلاف ہیں کیونکہ ان اقدامات سے بالآخر معیشت کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ کمپنیاں قیمتیں کم کردیتی ہیں مگر مصنوعات کی کوالٹی گرادیتی ہیں۔ یا مقدار کم کردیتی ہیں۔ امریکہ نے دو عالمی جنگوں پھر کوریا کی جنگ اور نکسن کے دَور میں 1971 سے 1973 کے دوران قیمتوں پر کنٹرول کیا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کی آخری دہائیوں اور اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں مہنگائی کا مقابلہ صارفین کی مزاحمت سے ہی ہوا ہے کہ وہ چیزیں صرف اپنی ضرورت کے مطابق خریدیں۔ صارفین کا یہ زندہ شعور ہی قیمتوں پر کنٹرول کا سب سے مستحکم میکانزم بن سکتا ہے۔ افراطِ زر سے سب سے زیادہ متاثر ہم ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے سب سے زیادہ محتاط بھی ہم کو ہی ہونا چاہئے۔

نادیدہ قوتیں اور مارکیٹ کی طاقتیں غیر محسوس طریقے سے ہم صارفین کی ذہنی توانائیوں، مزاحمتی شعور کو غیر ضروری بحثوں میں خرچ کروادیتی ہیں۔ صدارتی نظام کی بحث چلوادی جاتی ہے۔ کبھی کسی فرقہ وارانہ تنازع میں الجھا دیا جاتا ہے۔ لسانی مخمصے کھڑے کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے جب ضروری اشیا کی خریداری کو جاتے ہیں تو ہمارے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے۔ وہاں ہم مارکیٹ مافیا سے بحث میں نہیں الجھتے۔ لاہور سے کالم نگار مریم ارشد کہتی ہیں کہ ایک ہی چیز کی ایک اسٹور پر کچھ اور قیمت ہے، دوسروں پر اور۔ حکومت کے نرخنامے کی پابندی نہیں کی جاتی۔ چین نے عام کسان کی خوشحالی کے لیے زندگی کو آسان بنایا ہے۔ ہر علاقے میں ضروری اشیا کی فراہمی کو یقینی کیا ہے۔ کراچی سے عفت سلطانہ کا مشورہ ہے کہ مہنگائی کے طوفان میں غریبوں کے لیے راستہ کھانے پینے کی وہ چیزیں ہیں جو پکائے بغیر استعمال ہوسکتی ہیں جس سے بجلی، گیس اور وقت کی بچت ہوتی ہے۔ موسمی سبزیاں اور پھل۔ آزاد کشمیر سے جویریہ یاسمین اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلانے پر زور دے رہی ہیں جن اشیا کے بغیر گزارہ ہوسکتا ہے وہ چند دن خریدنا بند کردیں۔ ہم لوگ غیر ضروری خریداری کے عادی ہوتے جارہے ہیں جس سے امیروں کو تو فرق نہیں پڑتا لیکن ہم غریب مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ دِیر سے عزیز سائر کا مشورہ خواہشات کو محدود اور غیر ضروری اخراجات سے گریز کا ہے۔ ہماری مسجد کے خطیب مولانا ہدایت اللہ سدوخانی کہتے ہیں کہ قوم مہنگی چیز کا متبادل تلاش کرکے مہنگے کو ترک کردے، قیمت خود نیچے آگرے گی۔ ہماری مارکیٹیں بے لگام ہیں۔ سرکار کا نظام مضبوط ہونا چاہئے۔ الیاس خان کی تجاویز بہت مختلف اور اہم ہیں۔ وہ محلے داری کا مشورہ دے رہے ہیں۔ صحت، ٹرانسپورٹ، خریداری اور مشترکہ انتظامات کریں۔ محلے کے لوگ ہر شام بیٹھیں اور اگلے دن گزارنے کے مشورے کریں۔ ہفتے میں ایک دن ون ڈش پارٹی کریں۔ آفتاب فاروقی کفایت شعاری اور دوگنی محنت سے مہنگائی کا مقابلہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ سید ایاز حسین ایثار و قربانی سے کام لینے کا بتارہے ہیں۔ الطاف مجاہد گلی محلے کی سطح پر ویلفیئر تنظیمیں اور سستے اسٹال لگانے کی تدبیر دے رہے ہیں۔ حکومت آئمہ مساجد اور سماجی کارکنوں پر مشتمل پرائس کنٹرول کمیٹیاں بنائے۔ میر حسین علی امام بڑی گاڑیاں، مہنگے موبائل فونز کی درآمد بند کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ مال مویشی، مچھلی، پولٹری کی بڑی فارمنگ کی جائے۔ اسماعیل ڈومکی ضروری اشیا کی فراہمی کے لیے ڈپو کھولنے پر زور دے رہے ہیں۔ شگفتہ فرحت کہتی ہیں کہ بنیادی ضرورت کی اشیا کی خریداری میں مہنگی چیزوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ دعوتوں میں صرف ایک دو کھانے رکھیں۔ بینش صدیقی خواتین کو بھی ملازمت کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ محمد اشرف کا صائب مشورہ ہے کہ روز مرہ اشیا کی پاکستانی مصنوعات کی برآمد پر اس وقت تک پابندی لگائی جائے جب تک ملکی ضروریات کا اسٹاک پورا نہ ہوجائے۔ مسرور جان کا کہنا ہے کہ جب تک میں خود فضول خرچی نہیں چھوڑوں گا، مہنگائی رہے گی۔ کینیڈا سے نسیم سحر اکبر آبادی کہتے ہیںکہ مہنگائی کا مقابلہ روپے پیسے سے نہیں۔ کفایت شعاری سے کیا جاسکتا ہے۔ غیر ضروری اشیا کی خریداری بند کی جائے۔ تجربہ کار اعلیٰ سرکاری افسر ارتقا احمد زیدی مہنگائی کم کرنے کے طویل المیعاد اور فوری دونوں طریقے اختیار کرنے کی تجویز دے رہے ہیں اس کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو مشترکہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ جو اشیا مہنگی ہوں ان کی خریداری کم کردیں۔ ہر شہر میں صارفین کی انجمنیں بنائی جائیں۔ بازار جاتے وقت اشیا کی فہرست بنائیں۔ محلوں اور گلیوں کے لیے ضروری اشیا کی اجتماعی خریداری تھوک فروشوں سے کریں۔ سوشل میڈیا پر گراں فروشوں کی نشاندہی کریں۔ گھر کے سارے افراد کو اب آمدنی بڑھانے میں حصّہ لینا چاہئے۔

ان قیمتی آرا پر ان تمام درد مند پاکستانیوں کا ممنون ہوں۔ میرا حلقہ تو محدود ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن مخلص ہوں اور وہ عوام سے اسی طرح تجاویز مانگیں تو یقیناً قابلِ عمل مشورے بھی دستیاب ہوں گے۔ اور معاشرے میں مافیاز کا مارکیٹ کی قوتوں کی مزاحمت کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔ حکومتیں عالمی مارکیٹوں، آئی ایم ایف وغیرہ کے سامنے بے بس ہیں۔ معاشرے میں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ بد حالی ہمارا مقدر ہے۔ اس صورتِ حال کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔ فوج ہے، عدلیہ ہے۔ بے بسی کا یہ احساس ختم کرکے ہی ہم مہنگائی اور دوسری مشکلات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ آئیے مل جل کر مہنگائی کو پسپا کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ