اسلام آباد(صباح نیوز) وفاقی دارالحکومت کے ممتاز تھنک ٹینک اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایپری) نے 25 ویں سالگرہ منانے کے لیے ایک خصوصی تقریب میں اپنے بانی سینیٹر مشاہد حسین کو خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے اس تھنک ٹینک کی بنیاد بطور وزیر اطلاعات رکھی تھی۔ 90 منٹ کے اس پروگرام کا آغاز اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے صدر میجر جنرل (ر) ڈاکٹر رضا کے افتتاحی خطاب سے ہوااس کے بعد سینیٹر مشاہد حسین کا خصوصی خطاب اور ایک متحرک سوال و جواب کے سیشن کے علاوہ اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔سینیٹر مشاہد حسین نے اپنی تقریر میں 1998 میں پاکستان کے جوہری طاقت بننے کے بعد ایپری کے قیام اور 1999 میں کارگل کے تنازعے کا حوالہ دیا جس نے دنیا کے سب سے اسٹریٹجک حصے میں ایک عالمی کھلاڑی کے طور پر پاکستان کی اہمیت کو بڑھایا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی امور میں پس منظر رکھنے والے صحافی ہونے کے ناطے انہوں نے ایک ایسے ادارہ جاتی میکانزم کی ضرورت محسوس کی جو تین میں ایک مقصد کی تکمیل کر سکے: پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا تیزی سے جواب، سٹریٹجک کمیونیکیشن کو فروغ دینا اور قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی سے متعلق اہم مسائل پر قابل اعتبار بیانیہ پیش کرنا ۔
سینیٹر مشاہد حسین نے ایپری کو ‘خاکی -مفتی ہم آہنگی’ کی ایک اچھی مثال قرار دیا کیونکہ تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اس میں شامل تھے اور انہوں نے ‘خاکی -مفتی ہم آہنگی’ کو سیاسی استحکام اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ناگزیر قرار دیا، خاص طور پر جب ہم ا ندرون و بیرون ملک نظریات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین نے آئی پی آر آئی جیسے تھنک ٹینکس کو جامع بیانیہ کو پھیلانے اور اختلاف رائے سمیت مکالمہ کو فروغ دینے کی کلید قرار دیا تاکہ مسائل پر اتفاق رائے ہو سکے۔علاقائی اور عالمی منظر نامے کا حوالہ دیتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ پاکستان کے پاس ‘اب ایک خود مختار، خطے پر مبنی خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کے لیے اسٹریٹجک اسپیس ہے’ اور انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پاکستان کی شرکت کا خیرمقدم کیا، کیونکہ ‘ایس سی او،برکس کے ساتھ مل کر انصاف اور رابطے پر مبنی ایک نیا ابھرتا ہوا عالمی نظام اور بلاکس کی تعمیر کر رہے ہیں۔ ۔
انہوں نے کہا کہ آئی پی آر آئی جیسے تھنک ٹینکس کو سیفرشی کلچر کے ساتھ ساتھ خوف کے کلچر کو مسترد کرنا چاہیے جو کبھی کبھی حکمران اشرافیہ کی ذہنیت کو غلام بناتا ہے اور میرٹ، کردار اور اہلیت پر مبنی ثقافت کو فروغ دیتا ہے۔پاکستان میں استحکام اور ترقی کے لیے آگے بڑھنے کے راستے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے تین نکات ناگزیر ہیں: ایک جامع نقطہ نظر کے ساتھ ایک ہیلنگ ٹچ، پڑوسیوں کے ساتھ علاقائی بحالی اور بیرونی وسائل پر انحصار ختم کرنا۔ اندرون ملک جرات مندانہ اصلاحات کی رضامندی کے بغیر آئی ایم ایف میں پاکستان کی دائمی لت کا حوالہ دیتے ہوئے یا ‘دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے امریکیوں سے سنائپر رائفلز یا نائٹ ویژن چشموں کی بھیک مانگنا جب کہ ہمیں دہشت گردی سے لڑنے کے لیے گھریلو حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں ہم سمارٹ ٹیکنالوجی اور جدید ترین انٹیلی جنس کے ساتھ ہیں۔
پہلے سے ہی دس سال پہلے کامیابی سے کیا تھا۔سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ ‘اگر ہم نظام کی اصلاح کے لیے تیار ہیں تو پاکستان کا مستقبل درست ہے کیونکہ اس کی سب سے بڑی طاقت اس کا متحرک معاشرہ اور باصلاحیت نوجوان خواتین اور مرد ہیں، جن میں یقین کا حوصلہ ہے’۔قبل ازیں اپنی افتتاحی تقریر میں آئی پی آر آئی کے صدر ڈاکٹر رضا نے 25 سال قبل آئی پی آر آئی کی بنیاد رکھنے میں سینیٹر مشاہد حسین کے وژن کی تعریف کی اور آئی پی آر آئی کے کردار اور کامیابیوں کو درج کیا اور آج آئی پی آر آئی گلوبل تھنک ٹینک رینکنگ میں 74ویں نمبر پر ہے۔ اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اب توسیع کی ہے تاکہ معیشت اور بین الاقوامی قانون پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اسکالرز، طلبا اور میڈیا کے پیشہ ور افراد بشمول تھنک ٹینکس انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نسٹ کے رہنما وں نے اس تقریب میں شرکت کی۔