اختیارات کی جنگ۔۔۔تحریر: مظہر عباس


پاکستان کی تمام جمہوری قوتوں نے صوبائی خود مختاری کے لیے طویل جنگ لڑی اور مسئلہ اگر قیام پاکستان کے بعد ہی حل ہو جاتا تو آج مشرقی پاکستان ہمارا حصہ رہتا اس کے بجائے ’’ون یونٹ‘‘ جیسے اقدامات کرکے اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی جس کے بھیانک نتائج نکلے۔

 1973 کا متفقہ آئین سیاست دانوں کی اجتماعی سوچ کا نتیجہ تھا اور پھر کئی سال بعد 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو خاصی حد تک خود مختاری مل گئی البتہ عوام اس کے ثمرات سے آج تک محروم ہیں جس کی بڑی وجہ اختیارات کی صوبوں سے مقامی حکومتوں تک منتقلی کا نہ ہونا ہے جس کی سو فیصد ذمہ داری سویلین حکومتوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ بہرحال 2008 کے بعد سے اس ملک میں کچھ دشواریوں کے باوجود جمہوری تسلسل جاری ہے۔

 جو کام سابق صدر آصف علی زرداری صاحب نے 2008 میں پارلیمنٹ کو اپنے تمام اختیارات دے کر کیا اور ایک مثال قائم کی وہ کام انہی کی صوبائی حکومت 18ویں ترمیم کے تحت مقامی حکومتوں کو بااختیار بنا کر کیوں نہیں کرنا چاہتی؟ اُن کی حکومت نے تو یہاں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2021 کے تحت پہلے سے موجود اختیارات بھی سلب کر لیے گئے۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک سنہری موقع گنوا دیا، جو مطالبات دھرنوں کے بعد تسلیم کیے جارہے ہیں وہ کام تو حکومت خود بھی کر سکتی تھی۔ کراچی کو دنیا کے بڑے شہروں کی طرح ایک مکمل بااختیار میٹرو پولیٹن سٹی کا درجہ دے کر۔ الیکشن اختیارات لے کر نہیں دے کر جیتے جاتے۔ اگر کامیابی نہ بھی ملتی تب بھی یہ کریڈٹ اس کی قیادت کو جاتا، جس طرح 1973 کے آئین اور 18ویں ترمیم کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ بدقسمتی سے آج اس متنازع ایکٹ پر پی پی پی تنہا کھڑی ہے اور مزید حیرت اس بات پر ہے کہ اپنے خلاف فضا کو وہ خود ہی ہوا بھی دے رہی ہے۔

اس وقت پی پی پی کے سوا دوسری تمام سیاسی جماعتیں اور گروپس یک زبان ہیں کہ یہ ایکٹ بلدیاتی حکومتوں کےاختیارات سلب کرتا ہے۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت میں سیاسی نرسری کا کام کرتے ہیں جہاں سے نئی قیادت سامنے آتی ہے۔ اس وقت شہر میں احتجاج اور دھرنوں کی فضا بنی ہوئی ہے۔ کیا بلدیاتی اداروں کو سیاسی، مالیاتی اور انتظامی اختیارات نہیں ملنے چاہئیں؟ کیا سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ اس کی نفی نہیں کرتا۔ کیا یہ خود 18ویں ترمیم کے خلاف نہیں جس میں وفاق سے صوبوں اور مقامی حکومتوں تک اختیارات کو منتقل کرنا شامل تھا۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ کوئی ایک جماعت بھی اس مسئلے پر پی پی پی کے ساتھ نہیں کھڑی۔ اس کو نہ تو ’’لسانی‘‘ رنگ دینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ لسانی مسئلہ ہے، یہ ایک بے جا سی ’’ضد‘‘ ہے کہ نہ صوبائی مالیاتی ایوارڈ دیا جاتا ہے نہ ہی سندھ میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن سے لیا جاتا ہے۔ یہی کام اگر مرکز میں ہوں تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

ایک ایسے سیاسی ماحول میں بلاول بھٹو زرداری کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ اس طرف توجہ دیں اور جتنا جلد ہو سکے شہر میں روزانہ کے مارچ کی وجہ تلاش کرکے اسے حل کریں۔ ابھی تک جماعت اسلامی نے کراچی کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا۔ اچھا ہوا سندھ حکومت نے بات چیت کے ذریعہ یہ ختم کروایا۔

اس معاہدہ پر دو رائے ہو سکتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس احتجاج کے نتیجے میں جماعت سیاسی طور پر کراچی میں واپس آئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ شہر میں معتدل سیاست کو اپناتی ہے یا پرانی غلطیاں دہراتی ہے۔ جماعت پچھلے ایک سال سے ’حق دو کراچی کو‘ مہم زور و شور سے چلا رہی ہے۔ حافظ نعیم بہرحال ایک سیاسی کارکن اور محنتی آدمی ہیں۔ اب وہ ’ماموں‘ بنے ہیں یا نہیں یہ وقت بتائے گا مگر کام سیاسی ہی کیا ہے۔

رہ گئی بات متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کی تو وہ 24اگست 2016 کے بعد سے ایک نئی شکل میں آنے کی کوششوں میں ہے مگر دوسری جماعتوں کی طرح مرکزی حکومت کی اتحادی ہونے کے باوجود اسے وہ سیاسی کام ’محدود‘ طریقہ سے ہی کرنے کی اجازت ہے۔ مگر ایم کیو ایم کے پاس چار سال تھے جس میں وہ بلدیہ میں بہت سے کام کر سکتی تھی۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف ج کی نہ صرف مرکز میں حکومت ہے بلکہ وہ اس وقت کراچی کی بھی سب سے بڑی جماعت ہے۔

 پی ٹی آئی کے کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر اسد عمر اور علی زیدی کو یقین ہے کہ وہ 2023 سے پہلے گرین لائن کی طرح سرکلر ریلوے، ٹرانسپورٹ، پانی اور نالوں کی صفائی کا مسئلہ حل کر دیں گے۔ ویسے بھی وہ 26فروری کو گھوٹکی سے کراچی مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ’اختیارات‘ کی اس جنگ میں سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال بھی ایک موثر آواز کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

 ان سے بہت سے معاملات پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس مسئلے پر وہ بہرحال ایک مضبوط موقف رکھتے ہیں اور ان کی جماعت پی ایس پی نے بھی دھرنا دیا ہے۔ ان کی اس دلیل میں وزن ہے کہ مالی اختیارات کے بغیر کوئی میئر کامیاب نہیں ہو سکتا جس کے لیے ایک خود مختار بلدیاتی حکومت کی ضرورت ہے۔

یہ بات طے ہے کہ آئندہ بلدیاتی الیکشن بھی اور عام انتخابات بھی اس شہر میں بہت اہم ہوں گے لیکن آسان نہیں۔ لگتا نہیں کہ کوئی ایک جماعت واضح اکثریت لے کر آئے۔ کچھ نئے اتحاد بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ البتہ یہ طے ہے کہ کراچی میں اگر نئی مردم شماری کے تحت الیکشن ہوتے ہیں تو قومی سیاسی جماعتوں کے بڑے رہنما اس شہر سے الیکشن لڑیں گے۔ 2018 میں بھی عمران خان، شہباز شریف اور بلاول بھٹو میدان میں تھے۔

شہر کی بدلتی سیاسی صورتحال کا تعلق ملک کی سیاست سے بہت گہرا ہے یہاں سیاسی رنگ بڑا مختلف ہوتا ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی کراچی کی سیاست میں واپس آ رہی ہے جبکہ کئی برسوں سے حکومت کا حصہ رہنے والی ایم کیو ایم ’لندن‘ سےاپنا رشتہ توڑ کر بھی مشکل میں نظر آتی ہے مگر پھر بھی مقابلے کی سکت رکھتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے لیے اس وقت اپنی نشستیں نہ صرف برقرار رکھنا ضروری ہے بلکہ اندرون سندھ بھی اتحادیوں کے ساتھ کامیابی، اس لیے کٹھن ہے کہ پنجاب کے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے یہ بات سمجھنے کا کہ سیاست اور جمہوریت کی مضبوطی نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی سے ہی آ سکتی ہے بس سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں جمہوریت نہیں تھی تو سب نے لڑائی لڑی، آگئی تو سوچ آمرانہ ہو گئی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ