مقبوضہ کشمیر میں 23 سالوں میں684کشمیری خواتین شہید


سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی آپریشنز کے دوران35 سالوں میں22,976خواتین بیوہ ہو گئیں جبکہ 2500 خواتین کے شوہر بھارتی فورسز کی حراست میں لاپتہ ہوگئے یہ خواتین نیم بیواؤں کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جنوری 2001سے اب تک فوجیوں اور پیراملٹری فورسزکے ہاتھوں 684کشمیری خواتین شہید ہو چکی ہیں۔ ۔بیواؤں کے عالمی دن کے موقع پر ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری 1989سے اب تک 22,976خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ ان کے شوہروں کو بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے جعلی مقابلوں میں یا دوران حراست شہید کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 36سال کے دوران تقریبا 2500کشمیری خواتین کو نیم بیواؤں کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ بھارتی فوج اور پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد جن خواتین کے شوہروں کودوران حراست لاپتہ کیا گیا ان کو نیم بیواؤں کا نام دیاگیا ہے اور ان میں سے کئی کی موت ذہنی تناؤ کے باعث ہوئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن اے پی ڈی پی اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوںکے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر میں 1989کے بعد سے تقریبا 8000شہری بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی حراست میں لاپتہ ہو چکے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ نیم بیوائیں اپنے شوہروں کی تلاش کے لئے برسوں سے بھارتی فوج اورپیراملٹری فورسز کے کیمپوں کے چکرلگا رہی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2001سے اب تک فوجیوں اور پیراملٹری فورسزکے ہاتھوں 684کشمیری خواتین شہید ہو چکی ہیں۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ کشمیری خواتین کی اکثریت متعدد نفسیاتی مسائل اور ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیرکے نفسیاتی مریضوں میں60فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔سرینگر کی ایک ماہر نفسیات زویا میر کے مطابق زیادہ تر لوگ جسمانی بیماری کو ترجیح دیتے ہیں۔ دماغی بیماری اس طرح نظر نہیں آتی اس لیے اسے سمجھنا مشکل ہے۔انہوں نے کہاکہ ماہر نفسیات کے پاس جانے والے کو پاگل سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اس کے بارے میں بات بھی نہیں کرتے۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ فوجی جماؤ والے علاقے کی سڑکوں پربھاری تعداد میں فوجیوں کی مسلسل موجودگی اور عام شہریوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں نے خاص طور پر خواتین اور بچوں کی ذہنی صحت کو شدید متاثر کیاہے۔کشمیر میںانسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیوروسائنس کے ماہر نفسیات ڈاکٹر جنید نبی نے کہا کہ کسی ایسے شخص کے خاندان کا تصور کریں جس کا پیارا یا تو مارا گیا ہو یا گرفتارکیاگیا ہویا وہ خاندان جن کے گھر عسکریت پسندوں اور فوجیوں کے درمیان مقابلوں کے دوران تباہ ہو گئے یا جل کر خاکستر ہو گئے۔

انہوں نے کہاکہ چونکہ کشمیر میں خواتین اکثراپنے بچوں اوربزرگوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، اس لیے انہیں زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیری خواتین کو بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواتین حریت رہنما سیدہ آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، شبروز بانو، آفرینہ گنائی، منیرہ بیگم، صفیقہ بیگم اور عشرت رسول سمیت درجنوں خواتین حق خودارادیت کے جائز مطالبے کی پاداش میں مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں نظر بند ہیں۔رپورٹ میں کہاگیا کہ بیواؤں کا عالمی دن دنیا کو کشمیری بیواؤں اور نیم بیواؤں کی حالت زار کو سمجھنے کی یاددہانی ہے ۔دریں اثنا سول سوسائٹی کے نمائندوں بشمول ڈاکٹر زبیر احمد، محمد فرقان، محمد اقبال شاہین، سید حیدر حسین اور انسٹی ٹیوٹ اینڈ ڈاکومینٹیشن سینٹر (IDC) کے پروفیسر فرحان علی نے اپنے بیانات میں کہا کہ کشمیری خواتین مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں خواتین اپنے شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کو کھو چکی ہیں کیونکہ وہ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید یا دوران حراست لاپتہ ہوگئے ہیں۔ 2019کے بعد کشمیری خواتین کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ قابض حکام کی ظالمانہ کارروائیاں بڑھ گئی ہیں اوراب وہ شہدا کی میتیں بھی ان کے لواحقین کے حوالے نہیں کر رہے ہیں۔