چمن (صباح نیوز)امیر جمعیت علماء اسلام (ف)اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت ناجائز ہی نہیں، انتہائی نالائق ہے، حکمرانوں کا انجام بھی اشرف غنی جیسا ہوگا،جب ہم میدان میں اتریں گے تو حکمران بھاگ جائیں گے۔ آج اس وقت نیشنل سکیورٹی پالیسی بنائی جارہی ہے، بڑے، بڑے الفاظ استعمال ہوتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ واقعی کوئی بڑا کام ہونے والا ہے۔ اگر آج قومی سلامتی بنائی جارہی ہے تو پہلے تو یہ بتایا جائے کہ کیا 74سال تک پاکستان کی کوئی سلامتی پالیسی تھی، اگر74سال ہم نے ملک کی سلامتی پالیسی نہیں بنائی تو پھر یہ جواب دیا جائے کہ پاکستان کی پالیسی کیوں نہیں بنائی گئی اورآج جب تم نیشنل سکیورٹی پالیسی بناتے ہو ، جب تک پاکستان کی معیشت تباہ ہے معاشی بدحالی ہے، ملک معاشی لحاظ سے کمزور ہے توسوال ہی پیدا نہیںہوتا کہ آپ سلامتی پالیسی بناسکیں ، پہلے آپ کوریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرنا ہو گااور ریڑھ کی ہڈی معیشت ہوا کرتی ہے۔
ان خیالات کااظہار مولانا فضل الرحمان نے چمن میں علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی نہیں ہے، خارجہ پالیسی تب بنتی ہے جب آپ کی معیشت مضبو ط ہو ، لوگ آپ سے کاروبارکرنا چاہیں، دنیا کے مفادات آپ سے وابستہ ہوں، ایک کنگال ملک کے ساتھ کون بیوقوف ہو گا جو تجارت اورکاروبار کرے گا۔ کون بیوقوف ہو گا جو اس ناکام حکومت کی معاشی پالیسیوں کے ہوتے ہوئے وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا۔
انہوں نے کہاکہ جب چین نے سرمایہ کاری کی توان حکمرانوں کو ملک حوالے کیا گیا، ان ناہل لوگوں کو دھاندلی کے ذریعے ملک حوالے کیا گیا، یہ عوام اورقوم کے نمائندے نہیں اوراسی لئے دنیا ان کے ساتھ تعاون نہیں کررہی کہ وہ بھی ان کو پاکستانی عوام کا نمائندہ نہیں سمجھتے۔ افغانستان میں اگر کوئی تنظیم پاکستان کی دوست ہے تو وہ امارات اسلامیہ کے افغان طالبان ہیں۔ عام آدمی کے پاس بجلی اور گیس کا بل ادا کرنے ،اپنے بچوںکی سکول کی فیس ادا کرنے اور بازارسے راشن خریدنے کے پیسے نہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایک خبر آئی ہے کہ ہماری فوج نے بھی درخواست کردی ہے کہ ہمارے بجلی کے بل کو ہمارے لئے 50فیصد معاف کردیا جائے ، اگرہمارے دفاع کا بھی یہ حال ہوجائے توپھر ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔ ان حالات میں پاکستان کا مذہبی طبقہ، پاکستان کے علماء اور پاکستان کے مدارس جو اس ملک کے وفادار ہیں اوراس ملک کی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں ، ان کے محلات میں انہیں علماء کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک میں مہنگائی ہے، ملک کنگال ہے اوراس حالت میں بھی ہم افغانستان کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں یا افغانستان ہمارے ساتھ تجارت کرنا چاہتا ہے تو پھر ہم پاکستان کی سرحدوں کو بند کردیتے ہیں، کاروباری طبقہ کے کاروبار کو ختم کردیتے ہیں، مزدوروں کی مزدوری ختم کردیتے ہیں ۔
انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ ہماری حکومت آئے گی توایک کروڑ نوکریاں دیں گے اور نوجوانوں نے مان لیا کہ حکومت آئے گی اورایک کروڑ نوکریاں دے گی مگر ان کو یہ پتا نہیں ہے کہ آج پاکستان کو بنے 74سال ہونے والے ہیں اور آج تک بڑے ملازم سے لے کر چھوٹے ملازم تک ملک میں نوکریوں کی کل تعداد ایک کروڑ تک نہیں پہنچی اوریہ آکر کہتا ہے کہ ایک سال میں ایک کروڑ نوکریاں دوں گا۔چین نے پاکستان میں 70ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ، معاہدات ہوئے،عظیم الشان تجارتی شاہراہ سی پیک کی تعمیر شروع ہوئی ، بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ کے باوجود وہ بجلی ابھی تک عوام کو مہیا نہیں کی جاسکی۔ سی پیک کامنصوبہ روک دیا گیا ہے، چین جو پاکستان کا دوست تھا اور جس دوست کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ دوستی کوہ ہمالیہ سے بلند ہے ، یہ دوستی بحرالکاہل سے گہری ہے ، یہ دوستی شہد سے میٹھی ہے، یہ دوستی لوہے سے مضبوط ہے، آج ہم نے جب دیکھا یہ دوستی ،معاشی معاشی دوستی میں تبدیل ہورہی ہے تو ہم نے 70سالہ چین کی دوستی کو لات ماری اور ایک بااعتماد دوست کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ ہندوستان آپ کے بارے میں کیا سوچتا ہے، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں اورایک طویل عرصہ سے سیاست کے گلی کوچوں میں آوارہ گردی کر رہا ہوں اور کافی تجربات سے گزراہوں۔ افغانستان میں اگر کوئی تنظیم پاکستان کی دوست ہے تو وہ امارت اسلامیہ کے افغان طالبان ہیں، امریکہ چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات خراب ہوں
انہوں نے کہا کہ برطانیہ ہندوستان سے نکلا تو کشمیر کا جھگڑا چھوڑ کر گیا، برطانیہ عرب دنیا سے نکلا، اسے تقسیم کیا اور جاتے، جاتے اس نے وہاں پر اسرائیل کا ناسور چھوڑ ا جس نے دنیا عرب کو زخمی کی اور د نیا عرب کے زخموں سے آج بھی پیپ رس رہی ہے۔ آج جب امریکہ افغانستان سے نکلا تو افغانستان سے نکلنے کے بعد اس نے ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ پیچھے چھوڑا تاکہ کسی طریقہ سے دو دوست ، دوست نہ رہ سکیں، سرحدوں پر ہر ملک کا اپنا مئوقف ہوسکتا ہے لیکن سرحدات کے تنازعات پر جنگیں نہیں لڑی جاتیں اور یہ دور جنگوںکا ہے بھی نہیں، اگر ہم یہ جنگ لڑیں گے تو پھر امریکہ کی سازش کا میاب ہو گی، ہمیں ہر صورت اس صورتحال کی طرف جانے سے اپنے قدم روکنے چاہئیں،میں اپنے ملک کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں اور افغانستان کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں ۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم امریکہ کو مشورہ ہی دے سکتے ہیں کہ آپ امارات اسلامیہ افغانستان سے انسانی حقو ق کے حوالہ سے ضمانت مانگنے کا حق نہیں رکھتے مگر ہم امریکہ سے ضمانت مانگیں گے کہ امریکہ ہمیں انسانی حق کی ضمانت دے، یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اس سے مطالبہ کریں اس کے بعد ہی اس کی دنیا کے ساتھ اس کی دوستی ہو سکتی ہے، ورنہ یہ دوستی نہیں بلکہ طاقت ہے۔ ZS