کشمیر سے پہلے پاکستان۔۔۔تحریر یحییٰ اختر


سید علی گیلانی ؒ کا جسد مبارک ان کے گھر سے چھین کر لے جانا اور رات کی تاریکی میں دفن کر دینا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ بھارت کو یہ جرأت پاکستان کے رويے نے دی تھی ۔ یہی سید علی گیلانی تھے جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے تقسیم کشمیر کے فارمولے کو مسترد کیا تو کمینے جرنیل نے دہلی کی بھری محفل میں سید مرحوم سے بدتمیزی کر ڈالی۔ اور پھر بھارت میں ہی اس بزدل جرنیل نے سید کے خلاف جاہلانہ بیان جاری کردیا ۔ یہ بدمست جرنیل یہاں پر بھی نہ رکا بلکہ اس نے کشمیریوں کی جائز جدوجہد آزادی کو دہشت گردی قرار دے دیا۔ اور اپنی نگرانی میں خونی کنٹرول لائن پر باڑ لگوانا شروع کردی۔
کشمیر اور پاکستان کے عوام کا ہمیشہ سے لازول رشتہ ہے ۔ پاکستانی عوام کو کشمیر سے کتنی محبت ہے اس کا مظاہرہ ۵ فروری کو دنیا دیکھ لے گی ۔ ابھی تک پوری قوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ اس جذبے کو کمزور کرنے کے لئے طالع آزماؤں کی سازشیں ہمیشہ سے جاری ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کی جعلی قیادت کو متعارف کراکر جدوجہد آزادی کو کمزور کیا جائے ۔ ایسے لوگ حکومت کی سرپرستی میں دکھاوے کے مظاہرے اور تقاریب اس طرح سے انجام دیتے ہیں کہ جو صرف نمائشی ہوتے ہیں ۔ اس طرح کی تقاریب کا فائدہ حکومت وقت کو اس طرح سے پہنچایا جاتا ہے جیسے وہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں بہت خدمات انجام دے رہی ہے ۔ اس طرح سے یہ دو نمبر قیادت ایک غیر محسوس انداز سے عوام میں سے جوش وخروش کمزور کرتی جارہی ہے ۔ اس جعلی قیادت کی سب سے پہلی وکٹ جو گری وہ محترم عبدالرشید ترابی صاحب کی تھی ۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’وزیراعظم عمران خان کا مسئلہ کشمیر کے بارے میں وژن‘‘، تو پھر لوگوں کو متلی آنا شروع ہو گئی۔ جدوجہد آزادی کشمیر کے نام پر جب لوگ اقتدار کے ایوانوں کے مزے لینا شروع کرتے ہیں تو پھر نظر آجاتا ہے کہ کشمیریوں کو خجل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ابھی کچھ اور لوگ بھی زمینوں کے کاروبار میں سے برآمد ہوں گے ۔
اہل کشمیر کے لئے یہ بہت بڑا چیلنج ہے ۔ لیکن اس سے بھی بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان ایک انتہائ کمزور ملک ہے ۔ شروع دن سے جو واقعات اس ملک میں ہو رہے ہیں وہ تماشہ نما ہوتے ہیں ۔

بدقسمتی سے قائداعظمؒ کے بعد پاکستان کو مخلص قیادت میسر نہ ہوئ ۔ ایوب خان نے اپنے والد صاحب کی جاگیر سمجھ کر کشمیر کا ایک پورا علاقہ اکسائ چن، چین کے حوالے کر دیا ۔ پھر اس جرنیل نے تاشقند کے معاہدے میں مسئلہ کشمیر کو باہمی بات چیت کے ذریعے سے حل کرنے کا اصول شامل کر کے ، کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ اور پھر یہ مذاکرات اتنے ہوئے ، ایسے ہوئے کہ مذاق بن کر رہ گئے ۔ یہاں تک کہ بھارت میں انتہائ دائیں بازو کے سیاستدان کمار وشواس نے عام جلسوں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ کشمیر پر مذاکرات بھلے جتنی بار مرضی کر لو، ہزار بار کر لو لیکن کشمیر دینے کا نہیں ہے ۔
جنرل ضیاء نے دفاعی لحاظ سے انتہائ اہم مقام سیاچن گلیشئیر اپنے ہاتھوں سے جب گنوا دیا تو انتہائ بے شرمی سے کہنے لگا کہ کیا ہوا وہاں پر تو گھاس بھی نہیں اگتی۔ حالیہ برسوں میں حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا صوبہ بنانے کی کوششیں شروع کر کے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو شدید نقصان پہنچا دیا۔

آٹھویں دہائ گذر کر رہی ہے اور پاکستان کی مقدرہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کشمیر کے وکیل بننے کے اہل نہیں ـ بلکہ اس ملک پر ایسے لوگ مسلط ہیں جو خود پاکستان کو دن بدن کمزور کر رہے ہیں ۔ پاکستان ایسے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے اس کے دو ٹکڑے کئے اور اب بھی ظالم اسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہو رہا ہے ۔ اور علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں ۔
ملک ایک طرح کے سول مارشل لاء کی گرفت میں ہے۔ جہاں سچ بولنا ممکن نہیں ۔ کرپشن، لاقانونیت اور ظلم کے خلاف ہر آواز کو مکمل طور پر خاموش کر دیا جاتا ہے ۔ میڈیا ان دیکھے ہاتھوں کے قبضے میں یے۔
برطانیہ کے روزنامہ اخبار انڈی پینڈنٹ میں آج ایک رپورٹ شائع ہوئ ہے جس کے مطابق پاکستان آزادئ صحافت کے لئے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے ۔ حکومت اور جرنیلوں کی بدمعاشیوں پر بات کرنے والوں کو خاموش کرا دیا جاتا ہے ۔
بات بالکل واضع ہے کہ پاکستان نہ کشمیریوں کا وکیل بننے کے قابل ہے اور نہ کبھی اس نے وکالت کا حق ادا کیا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان پر مسلط اس ٹولےنے اپنے ملک اور قوم کی بجائے ہمیشہ صرف اور صرف امریکہ کے مفادات کا تحفظ کیا ہے ۔ ان حالات میں پاکستان اپنے اندرونی حالات پر توجہ لے تو بڑی بات ہوگی اور ضرورت بھی اسی کی ہے ۔
عالمی سطح پر نہ پاکستان کا کوئ وقار ہے اور نہ حمایت ہے جس سے تحریک آ زادی کشمیر کو فائدہ پہنچ سکے ۔
ان حالات میں ، اہل کشمیر کو اپنے مستقبل کے لئے سنجیدگی سے نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اور آزادی کی منزل حاصل کرنے کے لئے متبادل راستہ اپنانے پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ پاکستان کی ناکام وکالت کے سو سال مکمل ہو جائیں گے ۔
اور اگر پاکستان ہی کو وکیل رکھنا ہے تو پھر دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے پاکستان کی مرمت کر کے اسے اپنا وکیل بننے کے قابل بنایا جائے ۔ لیکن اگر اسی طرح سے چلتے رہے تو پھر اصل نقشہ یہ ہو گا کہ،
جس کی خاطر ہوئے بیمار میر۔
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہو۔