سورۃ الرحمن کی قدرومنزلت سے تو سب ہی مسلمان واقف ہیں۔ اور اس کو باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔
سور الرحمن سے مختلف بیماریوں کے علاج پر تحقیق کا سہرا سید صفدر شاہ بخاری صاحب کو جاتا ہے ۔ جن کو لوگ پیر کاکی تاڑ کے نام سے جانتے ہیں ۔
1998 میں میری پہلی ملاقات باباجی سے ہوئی ۔ میں خبریں اخبار کیلئے کام کرتا تھا ۔ بنیادی معلومات تو میں اسلام آباد سے لیکر ہی لاہور پہنچا تھا ۔ جو کہ زیادہ تر منفی پہلو تھے۔ میں گاں کا ایک سادہ بچہ جس کا ہمیشہ سے اصول رہا ہے خود جان کر جیو۔ تو جاننے کیلئے میں لاہور بازار حسن چلا آیا۔ باباجی سے ملاقات ہوئی۔ اور میں انکو چمڑ گیا ۔ کیونکہ جاننے کیلئے ساتھ وقت گزارانا بہت ضروری ہے۔ مجھے بابے پڑھنے کا بہت شوق ہے اگر آپ میرے فوٹوگرافی کے کام کو دیکھیں توآپ کو بابوِں کی تصاویر زیادہ نظر آئیں گے۔ اسی شوق میں کم ہی زندہ یا پردہ کئے ہوئے بابے ہونگے جن تک میں نہ پہنچا ہوں۔
میں لاہور بازار حسن میں بابا جی کے پاس تھا ۔ جو بتایا گیا تھا یہ وہ انسان نہیں تھے۔ یہ کچھ مختلف سین تھا شاید لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔ کہنے لگا کاکا کیسے آنا ہوا جی ملنے آیا ہوں۔ اچھا اور پھر ہم رات چار بجے تک ساتھ تھے ۔ باباجی کا صبر کمال تھا لوگ جس طرح کا برتاو انکے ساتھ کرتے تھے وہ پھر بھی مسکراتے رہتے تھے۔ یاداشت کمال کی تھی ۔ ہم ایک کمرے میں بیٹھ گئے گفتگو جاری تھی۔ اور لوگ آجارہے تھے۔ بابا جی نے بے شمار لوگوں کو ناچ گانے سے دھمال پر لگایا اور پھر دھمال سے بھی نکال کر کہیں اور لے گئے۔ دھمال کیلئے ایک لڑکی آئی اور اس نے دھمال شروع کی تو کچھ عقل کے اندھے وہاں لڑکی پر نوٹ نچھاور کرنا شروع ہوگئے باباجی نے میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ وہاں اخبار جہاں کے ایک لکھاری بھی تشریف فرما تھے۔ کہنے لگے باباجی کوئی اور ایٹم بھی ہے۔ میرا تو سر شرم سے جھک گیا۔ میں تو باباجی کو جاننے گیا تھا اور جان سے گیا۔
جو میں لکھ رہا ہوں یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے اور آنھوں دیکھا حال ہے کوئی سنی سنائی بات نہیں ہے۔باباجی نے بہت سختیاں برداشت کیں پر اپنے راستے پر ڈٹے رہے ۔ سینکڑوں لڑکیوں کو بابا جی نے ناچ گانے سے ہٹا کر دھمال کی طرف راغب کیا اور پھر انکی شادیاں اچھے گھروں میں کردیں۔ اور اخراجات بھی خود اٹھائے۔ بازار حسن کو خالی کرنے کا سہرا بھی بابا جی کے سر پر ہے۔ اسی ڈیوٹی پر مامور وہ وہاں تشریف فرما تھے۔ رات کو ہم دونوں تھانہ ٹبی گئے اور باباجی نے اپنے پورے دن کی مصروفیات وہاں درج کی اور میں دیکھتا ہی رہ گیا کہ نیکیوں کا حساب بھی دنیا میں دینا پڑتا ہے۔ مجھے کہنے لگے جاو نوازشریف ، قاضی حسین احمد سے کہو کسی ایک بچی کے گنگرو اتروا دے تو مانوں۔
یہ بابا سوا دوسو بچیوں کے گنگرو اتروا کر انکی شادیاں کروا چکا ہے ۔ وفات سے پہلے تک شاید یہ تعداد چارسو تک جاچکی تھی۔
کاکا جی یہ بہت مشکل کام ہے ۔ یہ سب کھلے خرچے والی کاکیاں ہیں اگر کسی کم آمدن والے سے بیاہ دوں تو واپس آجائیں گیں۔ میری تو ساری محنت ضائع ہوجائے گی۔ بہت دیکھ بھال کر رشتے کرنے پڑتے ہیں ۔ بابا ان کاکیوں کو جہیز بھی دیتا ہے اور دعا بھی دیتا ہے ۔ پھر ہم نے مختلف گھروں کے چکر لگائے اور باباجی انکو دھمال کی طرف لانے کی بات کرتے تھے
پھر میں واپس آگیا۔ لیکن مجھے اصل بابا مل چکا تھا۔ پھر 2000 میں میں نے پی ٹی وی جائن کرلیا۔
سید شاکر عزیر صاحب بڑے بھائی اور دوست ہیں ۔ انکے کمرے میں بیٹھا تھا کہ یکدم دروازہ کھلا اور باباجی آگئے۔ سب سے ملنے کے بعد میرے ساتھ بیٹھ گئے پیار سے کہنے لگے آپ تو کاکا جی غائب ہی ہوگئے۔ شاکر صاحب اچھا جی ملاقاتیں ہیں ۔ باباجی مسکرائے اپنا کاکا ہے۔
سید شاکر عزیر صاحب سور الرحمن سے علاج پر پروگرام کر رہے تھے۔ قاری عبدالصمد صاحب کی آواز میں سور الرحمن آنکھیں بند کرکیسنیں تین گھونٹ پانی پئیں اور یہ عمل دن میں تین دفعہ کرنا ہے۔ ہم بیشمار کینسر، گردوں اور مختلف بیماریوں کے مریضوں سے ملے جو صحتیاب ہو چکے تھے۔ ہم بھی اس ٹیم کا حصہ بن گئے۔ اس کیلئے سی ڈی بنانی ہو پرنٹنگ کرنی ہو، فوٹوگرافی کرنی ہو ہماری خدمات حاضر تھیں۔
میری تایا زاد بہن باجی عفت کینسر کی مریض تھیں جدہ سے اسلام آباد آئیں میں لینے گیا ہوا تھا گاڑی میں لٹا کر میں نے سور الرحمن لگادی اور گھر کی طرف چل پڑے ۔ جب سور الرحمن ختم ہوئی تو کہنے لگیں بیٹے آج بہت دنوں بعد درد رکی ہے مجھے تم یہ کیسٹ سعودیہ بھیج دیتے بہت تکلیف برداشت کی ہے۔ پھر ہم انکو سور الرحمن سناتے فیصل آباد لے گئے۔
کچھ سال بعد بابا جی کا انتقال ہوگیا اور ان کو للہ نزد پنڈ دادن خان سپردخاک کردیا گیا، اب وہاں باقاعدہ مزار بن چکا ہے بہت منظم عرس ہوتا ہے۔ کلام پڑھے جاتے ہیں ، دھمال ہوتی ہے۔ اور بہت شاندار لنگر جو کہ کرسیاں اور میز لگا کر پیش کیا جاتا ہے ۔
میں کئی دفعہ جاچکا ہوں فوٹوگرافی کرتا ہوں کیونکہ وہاں سب ایک دوسرے کو جی آیاں نوں مسکرا کر کہتے ہیں جیسے باباجی ہر وقت مسکراتے رہتے تھے۔
یہ سب بیان کرنے کا مقصد بھی بتاتا چلوں۔
میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کے عمل سے گزرا ہوں ۔ مجھے خوشی ہے جس کام کو شروع کرنے والوں میں ہم سید شاکر عزیر صاحب کے ساتھ ہیں۔ اس پیغام کو ہزاروں لوگوں نے مجھ تک واپس پہنچایا کہ سور الرحمن سنیں قاری عبدالصمد کی آواز میں بغیر ترجمہ کے ۔ دن میں تین دفعہ سنیں اور ساتھ تین گھونٹ پانی پیئیں۔ شفا منجانب اللہ
الحمد للہ روزانہ سنتے ہیں اور اس کی برکت اور اللہ کے فضل سے ریکوری بہت تیزی سے ہورہی ہے۔ ساتھ خوشی اس بات کی بھی ہے کہ جو کام شروع کرنے میں ہم حصہ ہیں۔ اللہ نے اس کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور بیشمار لوگوں کا علاج اور صحت ممکن ہوئی۔ فالج کا شکار لوگ قصیدہ بردہ شریف قاری خوشی محمد الازہری کی آواز میں سنیں انشا اللہ شفا نصیب ہوگی۔
اسلام آباد سے آتے ہوئے سید شاکر عزیر صاحب سے ملکر دعا لیکر آیا کہنے لگے کاکا جی فروری میں عرس ہے جلدی ٹھیک ہوجائیں ساتھ چلنا ہے۔ بڑا دل ہے جانے کا پر ڈاکٹر کہتے ہیں اپریل تک کسی سے مت ملیں گھر پر رہیں۔ اب ڈاکٹر کی مانوں یا دل کی۔
سب دوستوں سے سید صفدر شاہ بخاری صاحب کیلئے دعا کی درخواست ہے جنہوں نے اس نیک عمل کو شروع کیا اور لاکھوں لوگوں کے لئے آسانی ہوئی۔
جزاک اللہ خیر
Load/Hide Comments