آدمی جب اپنے ہی قہقہے سے ڈر جائے … تحریر : ڈاکٹر صغرا صدف


حساس لوگوں کے مسائل بھی حساس نوعیت کے ہوتے ہیں ، عقل و شعور کے ساتھ درد اور اذیت کا دائمی ساتھ ہے ، انسان کا وجود ایک درخت کی مانند ہے جس کی شاخوں پر رتوں کی مناسبت سے مختلف رنگوں کے پتے ، پھول ، پھل اور کانٹے اگتے اور جھڑتے رہتے ہیں ، یہ سب تنے کے احساس سے جڑت رکھتے ہیں ۔عقل اور احساس کا ردعمل وجود پر اثرانداز ہوتا ہے ۔عمل ، دماغ اور دل کی مشترکہ کارروائی ہے ۔عقل ہوگی تو شر انگیز کارروائیوں اور ظالمانہ حرکتوں پر ناپسندیدگی کے احساسات ابھریں گے کہ پرکھنے کا پیمانہ اور فیصلے کا اختیار تو دماغ کے پاس ہی ہے ، دماغ فیصلہ نہ کرے تو دل کی کیا مجال کہ ہنسے ، روئے یا بین کرے ، کہنے کا مطلب یہ کہ جنہیں قدرت کی طرف سے اعلی صلاحیتوں سے نوازا گیا انھیں دردِ دل بھی عطا کیا گیا ، سماج میں پھیلی بے انصافی ، استحصال اور دولت کی بے رحم تقسیم بھی دکھی کرتی ہے مگر غیر انسانی رویے ، انسانوں کے انسانوں پر ظلم اور آدمیت کی بے توقیری اہل دانش کے شعور اور احساس کو ایسے کچوکے دیتی ہے کہ وہ تڑپ اٹھتے ہیں ، کرب کی کیفیت میں یوں جکڑے جاتے ہیں کہ ہنسنا بھی جرم لگنے لگتا ہے، دنیا میں ظلم کے نت نئے سیریلز جاری ہیں ، دولت اور زمین کی ہوس میں خونریزی کی رسم عام ہے ۔وہ بھی ہمارے شعور میں اذیت کی طرح موجود ہیں مگر چند مہینوں بعد بے حرمتی کو جواز بنا کرڈھائی جانے والی قیامتیں زیادہ افسوس ناک ہیں ، جتھوں کی صورت میں جہالت کی ڈرامائی تشکیل مہذب دنیا دیکھتی اور ہمارے بارے میں رائے قائم کرتی ہے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں مسیحیوں کے ساتھ دوستانہ طور رہنے والوں کو صرف پاکستان میں ہی مسیحیوں سے بیر کیوں ہے ، جن کے مذہب میں محبت اور مسیحائی ہو وہ کسی کے مذہبی جذبات کی دل آزاری کیسے کر سکتے ہیں ، پھرجن کو بیچ بازار تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ تو پہلے ہی پِسا ہوا طبقہ ہے ، دو وقت کی روٹی کیلئے اٹھارہ گھنٹے مزدوری کرنیوالے اکثریت کیخلاف سوچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ باہر ہمارا واسطہ طاقتوروں سے ہوتا ہے اسلئے ظلم اور بے انصافی بھی نظرانداز ہو جاتے ہیں لیکن یہاں مدمقابل کمزور اور بے بس ہیں اسلئے ذرا سی کوتاہی ہماری انا کے گھوڑے کو بے قابو کر دیتی ہے ، جب ریاست نہ صرف ان متشدد کارروائیوں میں تماشائی کا کردار ادا کرنے لگے بلکہ مظلوم کو قصوروار ظاہر کرکے معافی مانگنے پر مجبور کرے تو ایسی کارروائیاں رکتی نہیں ، ضروری ہے کہ اقلیتیں بھی تعلیم حاصل کر کے خود کو مضبوط بنائیں اور معاشرے کے مہربان لوگ اور عورتیں ان کی مدد کیلئے آگے آئیں ،کہیں کوئی شہربانو نقوی ہجوم کے سامنے ڈٹ جائے اور کہیں صغراصدف کی للکار مظلوم کو پتھروں سے بچا سکے کیونکہ روپیہ پیسہ دے کر وقتی طور پر معاملہ رفع دفع کرنے والی ریاست ان کیلئے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ ایک نہتے فرد پر پتھروں ، گالیوں ، گھونسوں لاتوں کی بوچھاڑ کرنے والوں کے اذیتناک رویوں کے تناظر میں ملک کو دیکھنا مایوسی کی سیاہ رات جیسا ہے ، ایک درندگی کے مظہر معاشرے میں انسان کس طرح سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے، افضال فردوس نے اس اجتماعی دکھ کو یوں بیان کیا ہے۔

لوگ سہمے رہتے ہیں اس سمے کی آمد سے

آدمی جب اپنے ہی قہقہے سے ڈر جائے

ڈاکٹر افضال فردوس برسوں سے امریکہ میں مقیم ہے مگر اس کے سارے سکھ دکھ اپنی جنم بھومی سے جڑت رکھتے ہیں ،ایک بڑے چرچ میں گیان بانٹتا ہے لیکن اس کی سوچ میں دنیا کے ہر مذہب کے انسان کیلئے خیر کا جذبہ اور مسیحائی کی خواہش دھری ہے ، پاکستان میں پھیلے مسائل پر صرف تبصرہ نہیں کرتا بلکہ عملی طور بھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے ، وہ بہت عمدہ اردو اور پنجابی شاعر ہے ،حال ہی میں اس کی اردو شاعری کی کلیات شائع ہوئی ہے ، اس کلیات میں چھ مجموعے ، ستارے میرے ہاتھوں میں ، لوبان ، گھر یاد آیا، شالوم ، زیتون کے ہاتھوں میں اور مِرگ نینی شامل ہیں ، کتابوں کے عنوان سے شاعر کے تخیل کی اڑان ، ندرت خیال اور احساسات کی گہرائی صاف ظاہر ہے ۔اس کلیات سے کچھ شعر آپ کیلئے

اگرچہ طاق میں اک آفتاب رکھا تھا

سپاہیوں نے مگر گھر کو داب رکھا تھا

بدن یہیں تھا مگر روح کی خدا جانے

کہ تار ٹوٹ چکے تھے رباب رکھا تھا

وہ دور کشف و کرامات کا نہیں تھا مگر

اسی کی کوکھ میں اک انقلاب رکھا تھا

بشکریہ روزنامہ جنگ