اگر عمران خان بند گلی میں کھڑے نظر آتے ہیں تواسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی صورتحال کوئی زیادہ بہتر نہیں۔ ان دونوں کی لڑائی میں اگرچہ عمران خان ہی کمزور نظر آتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ یہ لڑائی جیت چکی غلط تجزیہ ہوگا۔
اسٹیبلشمنٹ کیلئے سیاسی معاملات سے پیچھے ہٹنا ہی سب سے بہترین رستہ ہے لیکن عمران خان اور پی ٹی آئی فوج اور فوج کی اعلی قیادت سے لڑائی ختم کرنے پر تیار ہی نہیں جس کی وجہ سے یہ لڑائی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ 9 مئی کے واقعہ پر معافی مانگنا تو کجا، اب تو عمران خان اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بیانات اور پوسٹس کو دیکھ کر خوب محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف 9 مئی سے بھی کچھ بڑا کرنے کے درپے ہے، جس خطرے کا میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی اظہار کیا تھا۔
ایک سال گزرنے کے بعد بھی فوج 9 مئی کے ملزمان کو عدالتوں کی طرف سے سزائیں دیے جانے کے انتظار میں ہے لیکن ایسا ہوتا بھی نظر نہیں آ رہا بلکہ عدلیہ کی طرف سے دوسرے مقدمات کی طرح عمران خان سمیت 9 مئی کے واقعات میں نامزد ملزمان کو ریلیف ملتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
گزشتہ ہفتہ ایک طرف فارمیشن کمانڈرز کانفرنس (جو فوج کی تمام اعلی قیادت پر مشتمل ہوتی ہے) نے مطالبہ کیا کہ 9 مئی کے ملزمان کو سزائیں دی جائیں تو دوسری طرف اسلام آباد کی ایک عدالت نے عمران خان کو 9 مئی کے دو مقدمات میں بری کر دیا۔ 9 مئی کس نے کیا، کس کس کی وڈیوز اور آڈیوز سامنے آئیں، کس کس نے عوام کو اشتعال دلایا اور جی ایچ کیو، لاہور کور کمانڈر ہاوس اور دوسرے فوجی علاقوں میں احتجاج کی کال دی، وہاں جلاؤ گھیراؤ کیا سب کچھ سب پر واضح ہے لیکن ہمارا عدل وانصاف کا نظام کس قابل ہے یہ بھی سب پر عیاں ہے۔
ایک ایسی صورتحال میں جب عمران خان اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا فوج اورفوجی قیادت پر نئے نئے حملے کر رہا ہے، اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پیچھے ہٹنا ممکن نظر نہیں آتا اور یوں یہ لڑائی آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لڑائی، جس کا نقصان دونوں فریقوں کے ساتھ ساتھ یقینا پاکستان کو بھی ہو رہا ہے، کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ عمران خان ٹکراو کی اس پالیسی سے پیچھے ہٹیں، جو ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ کیلئے جو چوائس بچتی ہے وہ صرف یہی ہے کہ معاشی طور پر پاکستان کو مشکلات سے نکالا جائے۔ موجودہ حکومت، جسے اسٹیبلشمنٹ کی ایکسٹینشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کو مجبور کیا جائے کہ وہ معیشت کو سدھارنے کیلئے دن رات ایک کر دے، جو بڑے اور مشکل فیصلے کرنے ہیں کرے، جو جو اصلاحات لانی ہیں وہ لائے۔ عوام کو ریلیف دینے کیلئے اگر ایک طرف مہنگائی میں کمی لائی جائے تو دوسری طرف گورننس کو بہتر بنایا جائے تاکہ سرکاری اداروں کی کارکردگی عوام دوست ہو اور وہ لوگوں کے روزمرہ مسائل حل کرنے کیلئے یکسو ہوں۔
اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی کی کوشش رہی اور اب بھی ہے کہ معاشی بحران بڑھے، معیشت نہ سنبھلے، نہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ دے، نہ دوست ممالک یہاں سرمایہ کاری کریں تاکہ ایک بحران پیدا ہو جس کا تحریک انصاف سیاسی فائدہ اٹھائے اور موجودہ حکومت اوراسٹیبلشمنٹ ناکام ہو کر پیچھے ہٹ جائیں۔
ایس آئی ایف سی بھی عمران خان اور تحریک انصاف کے نشانے پر ہیں۔
گویا معیشت اور گورننس کی کامیابی یا ناکامی کا عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی سے گہرا تعلق ہے۔ اگر معیشت اچھی ہوتی ہے اور گورننس بہتر ہوتی ہے تواسٹیبلشمنٹ یہ لڑائی جیت سکتی ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو عمران خان کا سیاسی بیانیہ ہی چلے گا اور انہیں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ