بہت ہی بڑا کنفیوژن ہے، جیل والے اور اوپر والے دونوں متضاد کونوں پر کھڑے ہیں۔ مصالحت، مفاہمت اور مذاکرات کی ہر آواز صد ابصحرا ثابت ہو رہی ہے، دونوں اپنے اپنے دلائل، تاثرات اور نتیجوں پر سخت موقف رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایک سیاسی ڈیڈ لاک ہے جو حل ہونے میں نہیں آ رہا۔
جیل والوں کو ہرطرف تخریب ہی تخریب نظر آتی ہے۔ ان کے خیال میں جو کچھ ان کی جماعت کے ساتھ ہوا ہے ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، ان کا تاثر ہے کہ پوری تاریخ میں بدترین دھاندلی پچھلے الیکشن میں ہوئی اور ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا، وہ سمجھتے ہیں جس قدر جیلیں، مقدمات اور مشکلات انہوں نے جھیلی ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ جیل والے سمجھتے ہیں کہ اوپر والوں سے مصالحت ہو ہی نہیں سکتی جب تک وہ اپنے کئے کا مداوا نہیں کرتے۔
دوسری طرف اوپر والوں کو ہر طرف تعمیر ہی تعمیر نظر آتی ہے، روپیہ مستحکم ہو رہا ہے ،اسٹاک مارکیٹ چڑھ رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، عرب ممالک سے سرمایہ کاری کی توقعات ہیں، چین سے سی پیک دوئم شروع ہونے والا ہے،مستقبل میں بہتری کی خوش خبریاں ہیں ،مہنگائی بھی کم ہور ہی ہے۔
جیل والے سیاسی باتیں کر رہے ہیں اور اوپر والے معاشی اعداد و شمار بیان کر رہے ہیں،تاہم نہ جیل والے پورے سچے ہیں اور نہ اوپر والے۔ جیل والے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے دو وزیراعظم قتل ہو چکے ہیں، ایک جوڈیشل مرڈر کا شکار ہو ئے، ضیا دور میں سینکڑوں کارکنوں کو کوڑے مارے گئے، درجنوں کو پھانسیاں ہوئیں ۔سندھ میں جہازوں سے فائرنگ کرکے مظاہرین کو مارا گیا اور یہ جدوجہد پورے گیارہ سال چلی۔ تحریک انصاف کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں ہوئی ہیں مگر وہ اس شمار میں پہلے نہیں، خدا کرے کہ آخری ہوں۔ اوپر والے جو معاشی اعداد و شمار بتاتے ہیں وہ درست بھی ہوں تو 23کروڑ کے مقروض ملک کو چلانے کیلئے ہماری معیشت ہمارا ساتھ دیتی ہوئی نظر نہیں آتی۔
اس ملاکھڑے میں سب سے دلچسپ اوپر والوں کا بیانیہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کے اوپر والے ماضی کے اوپر والوں سے یکسر مختلف ہیں۔ پچھلے پچاس ساٹھ سال سے اوپر والے حکومتی معاملات میں سرعام مداخلت کو اپنا حق سمجھتے تھے، آج کے اوپر والے ماضی کی اس روایت سے چھٹکارا حاصل کرکے سیاسی حکومتوں کو فری ہینڈ دینا چاہتے ہیں، معیشت کو چلانے میں ماضی کے اوپر والے روڑے اٹکاتے تھے آج کے اوپر والے اس حوالے سے حکومت کی مدد کیلئے خودمیدان عمل میں کودے ہوئے ہیں،ایس آئی ایف سی ہو یا بیرون ملک کے دورے، اوپر والے جان لڑا رہے ہیں کہ ملک معاشی مشکلا ت سے نکل آئے۔ پہلی دفعہ ایسے اوپر والے آئے ہیں جو خود پیچھے رہتے ہیں اور دوسروں کو آگے کرتے ہیں، خود نہ میڈیا پر آتے ہیں نہ تصویریں کھنچواتے ہیں اور نہ ہی خود لیڈر بننے کی کوشش میں ہیں لیکن ان اچھے ارادوں اور نیتوں کی کئی لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی وہ اتنی بڑی تبدیلی کو خوش آمدید کہنے کی بجائے بے جا مخالفت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایسے نرم مزاج اور شائستہ اوپر والے پچھلے پچاس سال سے نہیں آئے اور شاید ایسے اوپر والے پھر نہ ملیں۔ اوپر والوں کا شکوہ ہے کہ ہم پہلی بار چیزیں ٹھیک کرنا چاہ رہے ہیں ،ماضی کی غلطیوں کا مداوا کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کو علامتی سزا دی، اسی طرح بھٹو کی پھانسی غلط قرار دی،فیض آباد دھرنا انکوائری چل رہی ہے آج کے اوپر والے نہ صرف اس پر خاموش ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ماضی میں جو غلط ہواوہ اب درست ہوجائے۔ لیکن اس سوچ کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کسی کواجازت دے دی جائے کہ وہ ریاست کے گریبان میں ہاتھ ڈالے۔
دوسری طرف جیل والے دوبارہ سے 9 مئی سے پہلے کی صورتحال میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جیل سے باہر انقلاب تیار ہے اوپر والوں کے خلاف نفرت انتہا کو پہنچ چکی ہے بس کوئی ایک واقعہ یا حادثہ ایسے انقلاب کو جنم دے گا کہ اوپر والوں کا اقتدار ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا۔ ان کے خیال میں پھر انقلاب فرانس کی طرح گلی گلی ،محلے محلے ٹکٹکیاں اور گلوٹین لگیں گے اور انکی جماعت کو نشانہ بنانے والوں کے سر تن سے جدا ہوںگے، انکے خیال میں معاملات کا حل صرف اور صرف انقلاب ہے یا پھر حکومت کی باگ ڈور کپتان خان کو دے دی جائے ،جو واحد محب وطن لیڈر ہے۔
اوپر والوں کی بدلی سوچ اور انکے آئندہ کے معاشی عزائم کے ثمرات صرف حکومت تک محدود ہیں، اسی وجہ سے جیل والے شکوہ کناں ہیں کہ ان سے سوتیلوں جیساسلوک ہو رہا ہے، اوپر والوں کی نئی عدم مداخلت کی سیاسی اپروچ کا اطلاق جیل والوں پر بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ بھی جان سکیں کہ اوپر والوں کی سوچ ماضی کی پچاس سالہ پالیسیوں سے مختلف ہے۔
اوپر والوں کا خیال ہے کہ انکی سوچ میں نمایاں تبدیلی مارشل لا کے نفاذ کی سوچ کا مکمل خاتمہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اوپر والوں کی اس سوچ کو کسی کمٹمنٹ، کسی مشترکہ اعلامیے یا کم از کم آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کی شکل میں سامنے لانا ضروری ہے۔ دوسری طرف آج کل کے جیل والوں اور ماضی میں جیل جانے والے اہل سیاست سے یہ عرض ہے کہ حکومت سے یکطرفہ طور پر سیاسی مفاہمت کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کریں۔ پارلیمان میں دونوں فریق موجود ہیں سپیکر ایاز صادق عمران خان کے کلاس فیلو رہے ہیں وہ انہیں اچھی طرح سے جانتے ہیں، دوسری طرف نون لیگ کو بھی ان پر مکمل اعتبار ہے تو انہیں ان مذاکرات کا فوکل پرسن بنایا جاسکتا ہے، اوپر والے بالآخر مفاہمت ہی چاہیں گے، کپتان کو دھاندلی کی شکایات کا ریلیف ملنے کابھی امکان ہے لیکن ریاست سے ٹکراؤ کی پالیسی پر اوپر والے جھکنے کو تیار نہیں۔
اس عاجز کی رائے تو واضح ہے کہ ملک کو آگے لے جانے کا واحد راستہ مذاکرات اور مفاہمت ہے اگر اس طرف پیش رفت نہ ہوئی تو اوپر والوں کی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا دوسری طرف جیل والوں کوبھی انقلاب کے خواب دیکھنا بند کردینے چاہئیں، کیا انہیں 9 مئی سے سبق نہیں ملا…..!
بشکریہ روزنامہ جنگ