جامعات اور جمہور، کیوں رہیں دور : تحریر محمود شام


اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے عظیم ملک میں اتارا اور مسلسل ہمیں ایسے حکمراں عطا کیے جو اپنے ہر حرف کو ہی فرمان امروز خیال کرتے تھے۔ ایسی عدالتیں ہمارے حصے میں آئیں جو حکمرانوں کی طبع نازک کا پورا خیال کرتی تھیں۔ آیت بھی صرف ’اولی الامر منکم‘ یاد رکھی گئی۔ اخبارات اور 2002 سے میڈیا بھی ایسا کہ جنبش ابرو پر غلامی کرتا رہا۔ ہم اخباری بوڑھوں کے اندر آٹو گاڑیوں سے بہت پہلے ایسے ’آٹو گیئر‘ لگ گئے تھے کہ ہم جہاندیدہ، سرد و گرم چشیدہ خود ہی اپنے اظہار کو ایسے ’گیئر‘ میں ڈالتے تھے کہ کسی کو بھی ہماری ڈرائیونگ بری نہیں لگتی تھی۔

ہم نے تو ہر دَور کی حکمرانی سے بہت کچھ سیکھ لیا۔ لیکن ہمارے خاندانی حکمرانوں، موروثی سیاستدانوں نے کچھ سیکھنے کی زحمت نہیں کی، سارے آزمودہ ہتھکنڈے ہی دہرائے جاتے ہیں، سب جانتے ہیں۔

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رُسوائی، انجام بھی رُسوائی

یوں کر لیجئے۔ دیکھے ہیں بہت ہم نے ہتھکنڈے ریاست کے۔ آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی۔ لیکن یہ کم بخت رسوائی بھی کیا کافر شے ہے۔ اتنی خوبصورت، اتنی پُر کشش ہم اس کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور کہتے رہتے ہیں ’کچھ اور، کچھ اور‘۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمیں یہ حیات مستعار یہ چند روزہ زندگی ہی گزارنا ہوتی ہے۔ بڑے بڑے آمر منوں مٹی تلے پڑے ہیں۔ ان میں سے ایک دو کے علاوہ ان کی قبر پر ان کی اپنی اولادیں بھی نہیں جاتیں۔ ان کا کہیں ذکر بھی ہوتا ہے تو خیر سے نہیں۔ مگر یہ اقتدار کے ایوان ایسی فضا رکھتے ہیں کہ یہاں ہر آنے والا جانے والوں کی رسوائی کو ہی لائق تقلید خیال کرتا ہے۔ اب بھی اگر آپ آج کے حالات کو نہیں سمجھ پا رہے۔ تو آپ کیلئے سوشل میڈیا کے دروازے کھلے ہیں۔ وہاں الفاظ پڑھئے۔ وڈیو دیکھئے اور پھر آرام سے سو جائیے۔ بے شک آپ کے خراٹے آپ کی اولادوں تک کی نیند اڑا دیں گے۔

آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ نشست کسی کھانے کی میز کے گرد کرسیوں پر ہو یا فرشی۔ مقصد تبادلۂ خیال ہے۔ حالات الجھتے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے کیا مقسوم کیا ہے۔ ہم شعوری طور پر اس کیلئے تیار ہیں کیونکہ سمجھتے ہیں کہ غربت، مفلسی، بے بسی ہی ہمارا مقدر ہے۔ پے در پے اتنی شہادتیں ہوئی ہیں۔ اتنی انہونیاں کہ ہم یہ باور کرنے لگے ہیں کہ ہم خود کچھ نہیں کر سکتے۔ جو کچھ کرتا ہے۔ امریکہ کرتا ہے اور ہر چھوٹے ملک میں اپنے گماشتوں کے ذریعے وہ جو ہدف مقرر کرتا ہے۔ پورا کرلیتا ہے ہم بھول چکے ہیں کہ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ ذرّے کا دل چیر کے نہیں دیکھتے کہ اس خاک مختصر میں کتنے جہان چھپے ہیں۔ ایٹمی طاقت بھی اس کے اندر ہے، توانائی، روشنی کا سر چشمہ بھی یہی ذرہ ہے۔ یہی مشت خاک انقلاب بھی لے آتی ہے۔ اسی سے نئے جہان بھی تخلیق ہوتے ہیں۔ انقلاب فرانس ہو، انقلاب روس، انقلاب چین۔ اس مٹھی بھر مٹی سے برپا ہوئے ہیں۔ تاریخ نے انقلاب کو ممنوع قرار نہیں دیا اور نہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے کوئی پابندی عائد کی ہے۔

جامعہ کراچی کے آرٹس کے شعبے میں دو روزہ سیمینار ہو رہا ہے۔ موضوع ہے۔ سوشل سائنسز کی تدریس میں ابھرتے نئے رجحانات۔ جس اجلاس کی صدارت کا فرض مجھے سونپا گیا ہے۔ اس میں نکتہ یہ دیا گیا ہے۔ ’’تاریخی اور ادبی مطالعات میں نئے رجحانات‘‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن والے اور یونیورسٹیوں والے قدیم رجحانات سے باہر نہیں نکلتے۔ البتہ موضوعات نئے ضرور اختیار کر لیتے ہیں۔ میں ان لائق تکریم اساتذہ کو دیکھ رہا ہوں۔ جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ کس طرح دن رات پڑھتی ہیں۔ پڑھاتی ہیں، بہت ہی نا مساعد حالات میں یہ فرض انجام دیتی ہیں۔ پھر روز بڑھتی مہنگائی میں گھر بھی چلاتی ہیں۔ اپنے شاگردوں کے اپنی اولادوں کی طرح تربیت کرتی ہیں۔ چند روز میں ہی سیمینار کے موضوع پر مقالہ تیار کرتی ہیں۔ گریڈ، مراعات سب اپنی جگہ ضروری ہیں۔ لیکن 24 گھنٹے اسی کی فکر تو نہیں ہوتی۔ یونیورسٹیاں اب قریباً ہر شہر میں ہیں، سرکاری بھی پرائیویٹ بھی لیکن علم اور دانش ہر شہر میں نہیں ہیں۔ ہم اپنے اس شہر کو آٹھویں نویں صدی کا بغداد کہہ سکتے ہیں نہ کسی یونیورسٹی کو کولمبیا یونیورسٹی۔ اب حکمت و دانش مغرب کا اثاثہ بن چکے ہیں۔ مغرب میں اکیسویں صدی میں جامعہ شناسی کے معیار بھی اسی طرح بدل گئے ہیں۔ جیسے مشرق میں جامہ تلاشی کے۔

ڈاکٹر ذکیہ رانی ،ڈاکٹر شیر مہرانی، ڈاکٹر توقیر فاطمہ، صدف تبسم، ڈاکٹر سہیل شفیق سب کے مقالات ان کے رت جگوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد تاریخ اور ادب دونوں کو سماجی پرتو میں دیکھتے ہیں۔ اس لیے وہ تاریخ، ادب اور نئی نسل کے محبوب بن گئے ہیں مگر سب کو پسند آئی ہے، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کی بیٹی آمنہ عبدالرحمن کی پیشکش جو جائزے کے جدید ترین انداز میںتیار کی گئی۔ اس موضوع پر نئی نسل کا باقاعدہ سروے۔ سوالات جوابات، پھر تجزیہ، سفارشات، تجاویز اور باقاعدہ اختتام بھی۔ شکریہ پروفیسر عظمیٰ فرمان، پروفیسر شائستہ۔

میری عرضداشت کا آغاز یہ ہے۔ کسی سماج پر سب سے زیادہ اثر انداز جامع مسجدیں ہوتی ہیں یا جامعات۔ جامع مساجد تو اپنا یہ فریضہ بدستور انجام دے رہی ہیں لیکن جامعات سماج سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ اہم موضوعات پر کئی کئی روزہ سیمینار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن شہر کی گلیوں کو انکی ہوا بھی نہیں لگتی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں تو کئی ماہ سے اپنی یونیورسٹیوں سے ہی تقاضا کر رہا ہوں کہ جب ریاست اور حکومت آئندہ دس پندرہ برس کیلئے کوئی روڈ میپ نہیں دے رہی ہیں۔ ہزاروں ارب روپے کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے 24 کروڑ کو پتہ تو چلے کہ یہ قرضے کونسی پشت میں اتریں گے اور کیسے، کونسی قسط کونسی اولاد ادا کرے گی تو جامعات کا فرض ہے کہ وہ اپنے محترم پروفیسرز کی مشاورت سے یہ روڈ میپ تیار کرکے قوم کو پیش کریں۔ ایک وائس چانسلر صرف حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے کیلئے نہیں ہوتا۔ کئی ہزار طلبہ و طالبات اور سینکڑوں اساتذہ کا مستقبل بطور امانت اسکے پاس ہوتا ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا کنسورشیم بنا کر ایک اپنا میڈیا ہاؤس بنائے۔ جس کے اپنے اخبار، اپنے ریڈیو اسٹیشن، اپنے ٹی وی چینل اپنے اینکر اور اپنے یوٹیوب چینل ہوں۔ ان سیمینارز کو براہ راست دکھائے۔ آپ کے پاس تو لاکھوں سامعین ،ناظرین کلاس روموں میں موجود ہیں۔ ریٹنگ کا یا سبسکرپشن کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس طرح جامعہ اور جمہور آپس میں جڑ سکتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ