یکم جون 2024
محترم ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل
اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ
وفاقی شرعی عدالت کے سود پر مبنی پراڈکٹس کی توثیق کے فیصلے کی کونسل کی تائید و تحسین
اور بعد از خرابی بسیار اپنے مؤقف کی درستگی کے بجائے غلط حقائق کا سہارا
ہم نے 24؍جنوری 2023 کو وفاقی شرعی عدالت کے 28؍ اپریل 2022 کے سود پر مبنی اورشرعی اصولوں سے متصادم فیصلے کی اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے تائید و تحسین سے پریشان ہو کر کونسل کو چھ صفحات پر مشتمل ایک خط لکھا تھا۔ اس خط میں لکھی گئی گزارشات کا ایک اہم نکتہ یہ تھا :
”وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے میں بلا تحقیق اسلامی بینکوں کی کچھ ایسی پراڈکٹس کی بھی توثیق کر دی گئی ہے جو شرعی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں یا ان میں سود کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے چنانچہ اس فیصلے سے اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے سودی نظام کو فروغ حاصل ہوتا رہے گا۔“
ہم نے اپنے 24 جنوری 2023 کے خط میں کونسل اور کونسل کے چیئرمین سے استدعا کی تھی کہ :
”ربوٰ کے مقدمے میں وفاقی شرعی عدالت کے 28؍اپریل 2022 کے فیصلے کےضمن میں کونسل کے 228ویں اجلاس میں اختیار کیے گیے موقف پر نظر ثانی کریں جس میں نہ صرف اس فیصلے کی تحسین کی گئی تھی بلکہ بینکوں کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر نہ کریں ۔“
ہماری اس استدعا کے 14 ماہ بعد 3؍اپریل 2024 کو اسلامی نظریاتی کونسل نے لکھا ہے کہ اپنے 235 ویں اجلاس (31؍جنوری 2024 ) میں غور و خوض کے بعد کونسل نےجوابی مراسلے کی منظوری دے دی ہے۔ اس مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ کونسل نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی تحسین اس وجہ سے کی تھی کہ اس فیصلے میں ”تیسری مرتبہ یہ قرار دیا گیا ہے کہ بینکوں میں رائج سود ،سود ہی ہے۔“
یہ بات درست نہیں ہے کیوں کہ کونسل نے پورے فیصلے کی تائید کی تھی۔ ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ سود کو سود قرار دینے کے لئے کسی فیصلے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ربوٰ صرف بینکوں کا سود ہی نہیں ہوتا ۔ ہم نے کونسل کو لکھے گیے اپنے 24؍جنوری 2023 کے خط میں وفاقی شرعی عدالت کی ربوٰ کی تعریف کے ضمن میں سقم کا بھی ذکر کیا تھا لیکن کونسل نے اپنے جواب میں اس نکتہ کو بھی نظر انداز کردیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے ہمارے 24؍جنوری 2023 کے خط کے جواب میں 3؍ اپریل 2024 کو جو خط لکھا ہے (اس خط کی منظوری کونسل نے دو ماہ قبل دی تھی) اس میں کہا گیا ہے کہ کونسل نے موجودہ رائج اسلامی بینکاری کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی تفصیلی رائے قائم نہیں کی۔ یہ موقف ناقابل فہم ہے کیوں کہ کونسل سے ہماری استدعا تو صرف یہ تھی کہ وفاقی شرعی عدالت کے 28؍اپریل 2022 کے فیصلے کے ضمن میں کونسل اپنے 20؍مئی 2022 کے موقف پر نظر ثانی کرے۔
ہم یہ بات دہرانے کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے 3؍ اپریل 2024 کے خط میں اختیار کیا گیا یہ مؤقف حقائق کے خلاف ہے کہ کونسل نے 28؍ اپریل 2022 کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی تحسین صرف اس وجہ سے کی تھی کہ مقدمے کا فیصلہ آگیا ہے اور اس فیصلے میں سود کو حرام قراردیاگیا ہے۔
اس میں ضمن میں مزیدچند حقائق پیش ہیں:
- اسلامی نظریاتی کونسل نے 28؍ اپریل 2022 کو جاری کردہ پریس ریلیز میں کونسل کے چیئرمین کا بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیاتھا کہ ” وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے سے اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی راہ ہموار ہوگی جس سے اسلام کے عادلانہ نظام معیشت کے فوائد سے تمام طبقات یکساں طور پر مستفید ہوسکیں گے۔“
- اسلامی نظریاتی کونسل کے 228 ویں اجلاس کے اعلامیہ مورخہ 20؍مئی 2022 میں کہا گیا تھا:
”اجلاس میں انسدادسود سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی تحسین کی گئی اور یقین دلایاگیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس پرمربوط عمل درآمد یقینی بنانے میں ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔ اجلاس میں بینکوں سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل میں نہ جائیں اور ملک میں غیر سودی معیشت کو فروغ دینے کے لئے کردار ادا کریں۔“
اسلامی نظریاتی کونسل کے مندرجہ بالا اعلانات کے بعد ہم نے اپنے 24؍جنوری 2023 کے خط میں وفاقی شرعی عدالت کے 28؍ اپریل 2022 کے فیصلے کو غیر آئینی و غیر اسلامی قراردینے کے لیے گزارشات پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں سودی نظامِ معیشت و بینکاری پوری آب و تاب سے پھلتا پھولتا رہے گا اور تنبیہ کی تھی کہ :
”آنے والے برسوں میں معیشت سے سود کے خاتمے اور اسلامی بینکاری کے شرعی اصولوں پر استوار ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا اور اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے سودی نظام فروغ پاتا رہے گا۔“
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور معزز ممبران کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ہمارے 24؍ جنوری 2023 کے خط کےمندرجات پر غور کرتے۔ اگر اس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتے کہ ہمارے اعتراضات درست نہیں ہیں تو وہ یہ لکھنے میں حق بجانب ہوتے کہ کونسل اپنے اس مؤقف پر قائم ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے 28 ؍اپریل 2022 کے فیصلے سے پاکستان میں اسلامی معاشی نظام کے نفاذکی راہ ہموار ہوگی اور کونسل اس فیصلے پر مربوط عمل درآمد یقینی بنانے میں ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔ لیکن اگر کونسل کے چیئرمین اور ممبران اس نتیجے پر پہنچتے کہ ہماری گزارشات میں وزن ہے تو کونسل کو اپنے 20؍ مئی 2022 کے مؤقف پر نظر ثانی کرکے حکومت و قوم کو اپنے نظر ثانی شدہ مؤقف سے آگاہ کردینا چاہئے تھا۔ بدقسمتی سے کونسل نے اپنے جواب میں ہمارے کسی بھی اعتراض کے ضمن میں کچھ بھی نہیں کہا جو کہ معاملے کو 14 ماہ تک زیر التوا رکھنے کے بعد اصل مسئلے سے فرار کے مترادف ہے۔
متوازی نظام بینکاری شروع کرنے کا فیصلہ۔ سیاہ دن
پاکستان میں سود کے خاتمے کی کوششوں کو ایک بڑا دھچکہ 14؍جون 2001 کو لگا جب سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ نے اپنے 23؍ دسمبر 1999 کے فیصلے پر عمل درآمد کی مدت میں ایک سال کی توسیع 14؍جون 2001 کو حکومت سے یہ تحریری ضمانت لئے بغیر کردی کہ حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد کی پابند ہے حالانکہ اس فیصلے سے دوماہ قبل ہی ہم نے لکھا تھا کہ حکومت نے یہ غیر اعلانیہ فیصلہ کرلیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 23 ؍دسمبر 1999 کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔ 14؍جون 2001 کو ایک سال کی توسیع کرنے والی بینچ میں جسٹس تقی عثمانی بھی شامل تھے۔ سپریم کورٹ سے یہ توسیع ملنے کے تین ماہ کے اندر 4 ؍ستمبر 2001 کو پاکستان میں غیر آئینی اور غیر اسلامی فیصلے کے گیے چنانچہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن تھا۔ اس روز یہ طے کیا گیا کہ:
- پاکستان میں بلاسودی معیشت کو آہستہ آہستہ اور مرحلہ وار استوار کیا جائے گا۔
- اسٹیٹ بینک شرعی اصولوں کے مطابق نئے تجارتی بینک قائم کرنے، سودی بینکوں کی کچھ شاخوں کو اسلامی بینکاری کے لئے نامزد کرنے اور سودی بینکوں کو شرعی اصولوں کے مطابق ذیلی ادارے قائم کرنے کے لئے لائسنس کے اجراء پر غور کرے گا۔
یہ بات پہلے دن سے ہی روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ یہ فیصلے پاکستان میں سودی نظام کو دوام بخشنے کی سازش ہیں۔ یہ بات بھی واضح تھی کہ یہ فیصلے آئین پاکستان کی شقوں خصوصاً 38 (ایف) کی خلاف ورزی ہیں۔ اس امر میں بھی اجلاس کےشرکاء سمیت کسی کو بھی قطعی شبہ نہیں تھا کہ یہ فیصلے قرآن کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھے اور قرآن و سنت سے براہِ راست متصادم تھے ۔ یہ بات بھی واضح تھی کہ یہ فیصلے سپریم کورٹ کے 24 ؍جون 2001 کے احکامات کے بھی خلاف تھے جن کے تحت سپریم کورٹ کے 23 ؍دسمبر 1999 کے فیصلوں پر لازماً 30 ؍جون2002 تک عملدرآمد کرنا تھا ۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی تھی کہ پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے عرض کیا تھا کہ:
”4؍ستمبر 2001 کے فیصلے کے تحت قائم ہونے والا متوازی نظام بینکاری غیر اسلامی ہے اور اس اجلاس میں شریک علماء اور دوسرے ماہرین اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔“ اس کے بعد بھی ہم اپنا یہ مؤقف وقتاً فوقتاً دہراتے رہے ہیں مگر تقریباً 22 برس کا عرصہ گزرنے کےباوجود یہ غیر اسلامی متوازی نظام فروغ پارہا ہے۔“
یہ بات تشویشناک ہے کہ 4؍ستمبر2001 کے اس فیصلے سے پاکستان میں سودی نظام کو دوام بخش دیا گیا ہے جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران علماء، مفتیان سمیت دینی و مذہبی جماعتیں بھی گزشتہ 22 برسوں سے اس معاملے میں نہ صرف مکمل طور پر خاموش ہیں بلکہ عملاً اس متوازی غیر اسلامی نظام کی حمایت کررہے ہیں۔
4؍ستمبر 2001 کے اس اجلاس میں فوجی حکمران پرویز مشرف سمیت مندرجہ ذیل ماہرین و عالم دین بھی شامل تھے:
- ڈاکٹر عشرت حسین گورنر اسٹیٹ بینک۔
- آئی اے حنفی۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک۔
- ڈاکٹر محمود غازی وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور سابق عالم جج سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بینچ۔
- ڈاکٹر ایس ایم زمان چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اور کونسل کے کچھ ممبران۔
یہ تمام شخصیات اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ سودی نظام بینکاری اور اسلامی نظام بینکاری کو غیر معینہ مدت تک چلنے دینے کا یہ فیصلہ نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ قرآنی احکامات سےبھی براہِ راست متصادم ہے مگر حکومت وقت کی خواہش پر ان سب ماہرین نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے قرآنی احکامات سے متصادم فیصلہ کرلیا جبکہ اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ/ کمیٹی کے چیئرمین وممبران اور علماء ومفتیاںوغیرہ بھی اس معاملے میں گزشتہ 22 برسوں سے خاموش ہیں۔ واضح رہے کہ ممتاز عالم د ین ڈاکٹر محمود غازی اور مفتی مولانامحمد تقی عثمانی بھی اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ 4؍ستمبر 2001 کے غیر اسلامی فیصلے میں اسلامی نظریاتی کونسل بھی شامل تھی اور 22 برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اس فیصلے کو غیر اسلامی کہنے سے گریزاں ہے ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کو اب سے تقریباً دس برس قبل 28؍ اکتوبر 2014 کو ایک تفصیلی خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سودی بینکوں اور اسلامی بینکوں کا ساتھ ساتھ کام کرنے کا نظام بلاشبہ غیر اسلامی ہے مگر اس کا کوئی جواب کونسل کی طرف سے موصول نہیں ہوا جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل وفاقی شرعی عدالت کے اسلامی بینکوں کی سود پر مبنی پراڈکٹس کی توثیق کرنے اور سودی نظام کو مزید پانچ برس تک جاری رکھنے کے28؍اپریل 2022 کے فیصلے کی پشت پناہی کرنے کے اپنے 20 ؍مئی 2022 کے غیر اسلامی مؤقف کو بدلنے سے بھی گریزاں ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ – خوش آئند پہلو
اسلامی نظریاتی کونسل کو 24؍جنوری 2023 کو لکھے گیے خط میں ہم نے استدعا کی تھی کہ کونسل وفاقی شرعی عدالت کے 28؍اپریل 2022 کے فیصلے کے ضمن میں اپنے موقف پر نظرثانی کرے ۔ ہماری استدعا کے 14 ماہ بعد 3؍اپریل 2024 کو اسلامی نظریاتی کونسل نے لکھا ہے کہ کونسل کے 235 ویں اجلاس منعقدہ 31؍جنوری 2024 میں غور و غوض کے بعد جوابی مراسلے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ جوابی مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کونسل نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی تحسین اس وجہ سے کی تھی کہ:
”سود کے مقدمے میں فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے بنیادی سوال یہ اٹھایا گیا تھا کہ بینکوں کا سود کیا سود کی تعریف پر پورا اترتا ہے“ اور ”فیڈرل شریعت کورٹ نے سود کی تعریف کرتے ہوئے تیسری مرتبہ یہ قرار دیا ہے کہ بینکوں میں رائج سود سود ہی ہے جو ازروئے شریعت حرام ہے۔ یہ اس فیصلے کا خوش آئند پہلو تھا۔“
اس ضمن میں ہم عرض کریں گے کہ عدالتوں کے سامنے اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ بینکوں کا سود کیا سود کی تعریف پر پورا اترتا ہے یا نہیں بلکہ اصل سوال یہ رہا ہے کہ کیا سود بھی ربوٰ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں کیونکہ قرآن نے ربوٰ کو حرام قرار دیا ہے۔
ہم نے کونسل کو لکھے گیے اپنے 24؍ جنوری 2023 کے خط میں وفاقی شرعی عدالت کی ربوٰ اور اس کی تعریف کے ضمن میں سقم کا بھی ذکر کیا تھا۔ یہ بات نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ نے جون 2002 میں ربوٰ کا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس اس واضح ہدایت کے ساتھ بھیجا تھا کہ وہ بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر کی روشنی میں انڈیکسیشن کے مسئلے پر بھی فیصلہ دے۔ وفاقی شرعی عدالت نے سپریم کورٹ کے اس حکم کی پابندی نہیں کی اور اس اہم مسئلے کو نظرانداز کردیا ۔ ہم نے اپنے خط میں اسلامی نظریاتی کونسل کی توجہ ان دونوں امور کی طرف بھی دلائی تھی لیکن کونسل نے اپنے 3؍اپریل 2024 کے خط میں ان دونوں امور کو یکسرنظر انداز کردیا۔ یہ بات واضح ہے کہ ”ربوٰ کیا ہے؟“ اور ربوٰ کی جامع اور حتمی تعریف و تشریح ابھی تک شرعی عدالتوں نے کی ہی نہیں ۔ نتیجتاً آج بھی یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ سود بھی ربوٰ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں چنانچہ ہم نے کونسل کو 24؍ جنوری 2023 کے خط میں لکھا تھا۔
” اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آئین کی شق 38 (ایف) میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ (معیشت سے ) جلد از جلد ربوٰ کا خاتمہ کردیا جائے چنانچہ پارلیمنٹ کی منظوری سے اس شق میں یہ اضافہ کردیا جائے کہ سود ہر شکل میں ربوٰ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے بعد شرعی عدالتوں میں سود کے حرام نہ ہونے کا معاملہ زیر بحث لایا ہی نہیں جاسکے گا۔“
فتویٰ رجوع کرنے کی روایت
ہم کونسل کی توجہ دلائیں گے کہ مفتیانِ کرام کی جانب سے اپنے پرانے فتویٰ سے رجوع کرنے کی روایات موجود ہیں مثلاً: دارالافتاء جامعہ دارالعلوم ، کراچی کے فتویٰ نمبر 97/2455 ، مورخہ 1444.07.19 (12 فروری2023) کا اقتباس:
”جامعہ دارالعلوم کراچی سے جاری شدہ فتویٰ (235/15) میں جو مؤقف اختیار کیاگیا تھا وہ اس تقدیر پر تھا کہ حکومت کی طرف سے یہ نفع مشروط نہیں جبکہ آپ (سائل عبداللہ) کے سوال اور بعد میں اس کی صحیح صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ صورت میں قرض پر یہ اضافہ حکومت کی طرف سے مشروط ہے اور مقرض/ بینک نے یہ قرض اس صورت میں دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ مقرض کو اس پر حکومت کی جانب سے یہ نفع ملنا متقین ہے اور یہ کیفیت اس عقد کو ”قرض بدون فائدہ“ سے نکال کر ”قرض بفائدہ“ میں داخل کردیتی ہے۔
اسی طرح اخوت کیوں کہ آگےلوگوں کو قرضہ فراہم کرنے میں اصالتہ مقرض ہے اور اس قرض میں نفع مشروط ہے، لہٰذا اخوت کا اس نفع کی شرط کے ساتھ قرض دینا درست نہیں ہے اور یہ عقد سودی معاملہ کی ہی ایک صورت ہے اور ربوٰ اور سود میں داخل ہے جو کہ حرام اور ناجائز ہے۔“
” جیسا کہ ماقبل میں بیان کردہ تفصیل سے واضح ہوا کہ یہ معاملہ ایک سودی معاملہ ہے اس لیے اخوت کا اس کو قرض حسنہ کہہ کر تشہیر کرنا درست نہیں ہے، ادارہ کا اپنے معاملات کو مذکورہ صورت سے مکمل کرنا اور اپنے معاملات کو سودسے پاک شمار کرنا اور اس پر اجرت حاصل کرنا بھی ناجائزہے “
دارالعلوم کراچی نے اپنے پہلے فتویٰ سے رجوع کرلیا ہے مگر اس سے قبل خطیر رقوم کے سودی قرضے شریعت کی رو سے جائز قرضے قرار دے کر دیے جاچکے تھے۔ ہم کونسل سے درخوست کریں گے اگر ممکن ہو تو وہ متعلقہ اداروں کو مشورہ دے کہ وہ ان قرضوں کو بلاسودی قرضوں میں تبدیل کرانے کے لیے اقدامات اٹھائیں ۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل بھی وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے ضمن میں اپنے موقف پر نظرثانی کرے ۔
تنبیہ اور استدعا
کونسل کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے ربوٰ کے مقدمے میں اپنے 23؍دسمبر 1999 کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے 30 جون 2002 تک کی مہلت دی تھی لیکن ربوٰ کا مقدمہ آج بھی سپریم کورٹ میں لمبے عرصے سے التواء میں پڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں طاقتور طبقے نہیں چاہتے کہ معیشت سے سود کا خاتمہ ہو کیوں کہ اس سے ان طبقات کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے تقریباً 20 برس بعد جو فیصلہ 28؍ اپریل 2022 کو سنایا ہے وہ غیر اسلامی تو تھا ہی اس فیصلے میں جھول بھی رکھے گیے تھے جس کے ضمن میں کچھ گزارشات ہم نے کونسل کو لکھے گیے اپنے 24؍جنوری 2023 کے خط میں پیش کی تھیں۔
وفاقی شرعی عدالت کے 28؍ اپریل 2022 کے غیر اسلامی فیصلے اور حکومت ، اسٹیٹ بینک ، اسلامی نظریاتی کونسل، دینی و مذہبی جماعتوں ،علماء و مفتیان اور تاجر برادری کے اس فیصلے کی حمایت و پشت پناہی کے تباہ کن مضمرات کو سوچ کر ہماری روح بھی کانپ جاتی ہے۔ 30؍ جون 2002 کو پاکستان کے مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کا حجم صرف 3856 ارب روپے تھا جو 31؍ دسمبر 2023 کو 81000 ارب روپے ہوگیا۔ ان سودی قرضوں کو بلا سودی قرضوں میں منتقل کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اگروفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ اور حکومت و اسٹیٹ بینک کی موجودہ پالیسیاں برقرار رہتی ہیں تو خدانخواستہ اس صدی کے اختتام پر بھی پاکستان میں سودی معیشت پروان چڑھ رہی ہوگی۔
ہم اسلامی نظریاتی کونسل سے ایک مرتبہ پھر استدعا کریں گے کہ وہ وفاقی شرعی عدالت کے 28؍ اپریل 2022 کے فیصلے کی تحسین اور پشت پناہی کرنے کے اپنے 28؍ اپریل 2022 اور 20؍مئی 2022 کے مؤقف پر ہمارے 24؍ جنوری 2023 اور 18؍مارچ 2024 کے خطوط کی روشنی میں نظرثانی کرے اور اپنے فیصلے سے ہمیں ،حکومت اور قوم کو مطلع کرے۔
ہم میں سے ہر شخص کو سورہ البقرہ کی 275 سے 279 کی پانچوں آیات اور سورہ المائدۃ کی آیت نمبر 44 اور 45پر درد مندی سے غور کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
چیئرمین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بنکنگ اینڈ فنانس، کراچی
130/1، اسٹریٹ نمبر9، آف خیابان مسلم، فیز6،
ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی، کراچی
Cell No. 03343119776