خواب زلیخا کا طلسم اور دام بردہ فروش … تحریر : وجاہت مسعود


ہمارے عہد میں چار شاعر ایسے گزرے جنہیں خود نمائی ، شہرت ، ادبی گروہ بندیوں اور دنیائے رنگ و بو میں نمود سے غرض نہیں تھی۔ مجید امجد، مختار صدیقی، عزیز حامد مدنی اور محبوب خزاں۔ آج رائے پور کے عزیز حامد مدنی یاد آرہے ہیں۔ 1922میں پیدا ہونے والے عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں اعلی تعلیم پائی۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں اطلاعات و نشریات کے صیغے سے وابستہ ہو گئے۔ کنٹرولر آف ہوم براڈ کاسٹنگ کے منصب تک پہنچے۔1991 میں انتقال ہوا۔ تزویج و متاہل سے تعلق نہیں رکھا۔ کلام کے چار مجموعے چشم نگراں، دشت امکاں، مژگاں خوں فشاں اور نخل گماں البتہ ایسے چھوڑ گئے کہ اردو شعر میں درجہ دوام پایا۔ مدنی صاحب فرماتے تھے ۔ ادب کے ہزار شیوہ،ہزار رخی چہرے کی پہچان کسی ایک آدمی تک محدود نہیں ہوتی۔ ہر دور میں افراد کی پسند اور معاشرتی تجربات کے مطابق ادب لکھا، پڑھا اور برتا جاتا ہے۔ دو چار بڑی کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک ہی پرتو میں اس ہزار رخی چہرے کے صلح وپیکار کی ساری کیفیتیں سمیٹ لیتی ہیں ۔اسی تحریر میں مدنی صاحب نے انتباہ بھی کیا کہ ایسی کتابوں کو اثاثے کی بجائے کوہ گراں جاننے والے بے رنگ محرری کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ اس زاویے سے مدنی صاحب خود ایسے احتیاط پسند تھے کہ ا ن کے درجنوں اشعار ضرب المثل کا درجہ پا کر نئی اردو شاعری کے لہجے میں جذب ہو گئے۔ اردو شعر کی بحث میں میر کا نام لینا حفظ مراتب کے منافی ہے۔ تاہم تلازمے کی نشان دہی تو ہو سکتی ہے۔ میر نے فرمایا ۔ کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی۔یہ انتہائے سفر کی اطلاع تھی۔ عزیزحامد مدنی نے راستے کا احوال بیان کیا ۔ طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش / ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں۔

ان دنوں وطن عزیز میں ایک ٹویٹ کی خبر گر م ہے۔ ہماری روایت ہے کہ وقفے وقفے سے کسی سیاسی رہنما کے نام اور تصویر پر قدغن لگا دی جاتی ہے۔ بھٹو صاحب وزیراعظم تھے تو ان کے تعظیمی القاب تین سطروں پر محیط ہوتے تھے جو شمالی کوریا کے رہنما کم ال سنگ کی تشہیری سوانح سے حرف بحرف اٹھائے گئے تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ بھٹو کا نام تو ایک طرف، نشریاتی اداروں پر مکئی کے بھٹے کا ذکر بھی ممنوع قرار پایا۔ اگست 1990میں سیدہ عابدہ حسین وزیر اطلاعات بنیں تو دو ٹوک ہدایت جاری کی کہ معزول وزیراعظم محترمہ بینظیر کو صرف بینظیر بھٹو صاحبہ کہا جائے۔ بعد ازاں پاکستان کے خودساختہ چیف ایگزیکٹو آفیسر پرویز مشرف نے نواز شریف اور بینظیر بھٹو پر بھی کمپنی بہادر کا حکم جاری کیا۔ 40 برس قبل افلاک سے ایک فرشتہ بلدہ کراچی پر اترا تھا جس کا گیت مالا تمام ٹیلی ویژن سکرینوں پر سماعت کا امتحان لیتا تھا۔ اگست 2015میں بھائی صاحب محض بانی تحریک رہ گئے۔2018 میں صادق اور امین قرار پانے والا 2023آتے آتے محض بانی چیئرمین رہ گیا۔ اب اسی بانی چیئرمین کے ایکس اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ نکلی ہے۔ متن سے واضح ہے کہ پابند سلاسل عمران خان نے ٹویٹ خود نہیں لکھی لیکن سوشل میڈیا پر کوئی اکاؤنٹ جس شخص کے نام پر رجسٹر ہوتا ہے وہی مندرجات کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔ خبر ہے کہ بانی چیئرمین ایف آئی اے سے تعاون کرنے سے گریزاں ہیں۔ ٹویٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل پاکستان حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پڑھ کر یہ جانیں کہ یحیی خان اور مجیب الرحمن میں سے حقیقی غدار کون تھا۔ بظاہر متن میں کسی موجودہ سیاسی یا ریاستی عہدے دار کا نام نہیں لیا گیا لیکن اشارہ بالکل واضح ہے۔ آپ کو یاد دلا دیں کہ یکم نومبر 2022کو اسلام آباد کی طرف حقیقی آزادی کے لیے مزعومہ لانگ مارچ کے آغاز پر عمران خان نے بعینہ یہی الفاظ استعمال کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن کا نام لے کر کہا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کو اس کے جائز حق اقتدار سے محروم کرنے کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوا تھا۔ گویا عمران خان کے بیانیے میں مجیب الرحمن کا اشارہ نیا نہیں۔ زیر تفتیش معاملے پر حکم لگانا مناسب نہیں البتہ عزیز حامد مدنی کے شعر کی رعایت سے پاکستان کے جمہوری سفر پر گزرنے والا حادثہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ لالہ موسی کے شہرہ آفاق صحافی نے سابق فوجی سربراہ قمر باجوہ سے یہ جملہ منسوب کر رکھا ہے کہ ہم عمران خان کے عشق میں گرفتار ہو گئے تھے۔ یہ عشق ہی خواب زلیخا تھااور اس کا طلسم ایک روز ٹوٹنا تھا۔ قوم عشق کی بنیاد پر نہیں، ہوش و خرد کی روشنی میں کیے گئے فیصلوں سے چلائی جاتی ہے۔ عزیز حامد مدنی نے اس تلمیح میں بردہ فروش کی ترکیب بھی استعمال کی ہے۔ بائبل مقدس کے باب Genesis میں لکھا ہے کہ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے یہوداہ (Judah)نے اپنے بھائیوں کو سمجھایا تھا کہ یوسف علیہ السلام کو قتل کرنے کی بجائے غلام بنا کر بیچ دیا جائے۔ عمران خان نے تو اپنی متنازع ٹویٹ میں کسی کو متعین طور پر غدار نہیں کہا لیکن اہل وطن جانتے ہیں کہ ہماری تاریخ میں بردہ فروش کون ہے۔ وہ تمام طاقتیں بردہ فروش ہیں جنہوں نے وفاق پاکستان کے دستور کو روندتے ہوئے عوام کا حق اقتدار غصب کیا۔ یہ ایک طویل تمثیل ہے لیکن 2009سے اب تک کے پندرہ برس میں نمودار ہونے والے بردہ فروشوں کی فہرست میں خود عمران خان کا اسم گرامی بہت اوپر آتا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ نامعلوم کہاں پہنچا لیکن مسل مقدمہ کے مطابق بیشتر رقوم 2009سے 2012 کے درمیان موصول ہوئیں۔ گویا قوم کے آفاق پر سحر کا دام بچھانے والے پس پردہ کردار 2008میں نحیف جمہوری تجربہ شروع ہوتے ہی سرگرم ہو گئے تھے۔ عمران خان نے تومحض مشتری ہوشیار باش کا آوازہ لگایا ہے ۔اہل پاکستان جانتے ہیں کہ خواب زلیخا کس نے دیکھا اور بردہ فروشوں کی محضر پر کس کس کی مہر ثبت ہے۔ عزیز حامد مدنی ہی کا شعر دیکھئے

خوں ہوا دل کہ پشیمان صداقت ہے وفا

خوش ہوا جی کہ چلو آج تمہارے ہوئے لوگ

بشکریہ روزنامہ جنگ