پاکستان ایک بار پھر بدترین بحران میں ، وطن دشمن ٹوٹ پڑنے کو، ایسے موقع پر غداروں کا تعین پہلی ترجیح بنتا ہے ۔ عمران خان کی آفیشل ٹویٹ ،’’ غدار کون؟‘‘ آج اور 1971ءکےمشرقی پاکستان کے حالات کا تقابلی جائزہ اور شیخ مجیب الرحمن غدار یا جنرل یحییٰ، کی بحث ، وطن دشمنی کیساتھ خواہشات کا انبوہ نظر آ رہا ہے ۔پہلا مقصد غداری کے کٹہرے میں جنرل عاصم منیر کو کھڑا کرنا ہے ۔’’ غدار کون‘‘کی ٹویٹ نے سوشل میڈیا پر کہرام برپا کر رکھا ہے۔
میرے پڑھنے سننے والے بخوبی واقف کہ ہمیشہ سے ملکی سیاسی بحران کا کُلی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو گردانتا ہوں ۔ حقیقت سے انکار نہیں، دشمنوں کے نرغے میں گھرے وطن کی واحد محافظ و پاسبان ہماری فوج ہے ۔ دوسری حقیقت! جرنیلوں، افسروں، جوانوں میں جہاں بھارت سے نفرت اور دشمنی ( جنرل باجوہ EXCEPTION ) کوٹ کوٹ کر بھری ہے وہاں بوجہ سیاسی در اندازی، 75 سال سے عسکری قیادت امریکی مفادات پرملکی مفادات قربان کررکھنے میں ملوث ہے ۔ امریکی خوشنودی کے بغیر پاکستان میں سیاسی من مانی ممکن نہیں رہتی ۔
عمران خان سے یہ کریڈٹ چھیننا زیادتی کہ اپنے ماضی حال کے اعمال و بیانات سے انکاریا اپنی مرضی کے معنی پہنائے یا یوٹرن ملکی سیاست میں منفرد ریکارڈ ہے ۔ سہولت کہ انصافیے مرید بننے پر فخریہ اِتراتے ہیں ، مرشد پاک کے ہر فرمان پر واری ، مرمٹنے کو تیار ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ایسا سیمپل اس سے پہلے پیر الطاف حسین کی صورت تھی ۔چکا چوند مثال ، مارچ 2022 سے جنرل باجوہ کو غدار ، میر جعفر ، میر صادق ، جانور ثابت کرنے میں مستعد مرشد نے درجنوں جلسے کئے ، مریدوں کو سینکڑوں مرتبہ اَزبر کراڈالا۔ ستمبر / اکتوبرمیںمنت ترلوں کے بعد بذریعہ صدر علوی دو دفعہ ملاقات نصیب ہوئی ۔ جنرل باجوہ کا چھوٹتے ہی طنز ،’’آپ تو مجھے غدار سمجھتے ہیں پھر ملاقات کی تڑپ کیوں؟‘‘ ، عمران ہڑبڑا گئے ،’’وہ تو میں نواز / شہباز کیلئے کہتا ہوں‘‘۔مرشد تب بھی کھرا اور آج بھی سچا ہے۔ اگر جنرل باجوہ نے قرآن اُٹھا کر کوئی سچ بولنا ہی تھا تو پھر مرنے سے پہلے عمران خان کو مملکت پر مسلط کرنے سمیت ایسی تمام میٹنگز کا قرآن پکڑ کر احوال بتاجائیں ۔
بات غیر متعلقہ مگر ضروری پچھلے چند دنوں سے ایک محترم بزنس ٹائیکون کے جسد خاکی میں جان آ چکی ہے ،’’ کفن پھاڑ کر‘‘گواہی دے رہے ہیں ،’’میں نے وعدہ معاف گواہ نہیں بننا‘‘۔ ثابت کرنا کہ ان صاحب نے القادر ٹرسٹ پر زمین و پیسہ نچھاورکیا ، بدلے میں 190 ملین پاؤنڈ ہتھیائےیا سب مندرجات مستحکم اور درج ، راکٹ سائنس نہیں ۔ ان سے پوچھنا بنتا ہے کہ اس ضمن میں کونسا عمل آپکی وعدہ معاف گواہی کا مرہون منت ہے ۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ نے پہلی مرتبہ اپنا اثاثہ اس جرم کیساتھ لف رکھا ہے ۔ ان صاحب کے درجن بھر سوشل میڈیا پیغامات سنتے ہی ان سے مستفید ہونیوالے اور انصافیوں کا فریفتہ اور واری ہونا بنتا تھا ۔ ویسے بھی عمران خان کی قسمت میں فرح گوگی بیچاری سمیت درجنوں کرپٹ لوگوں کا وکیل صفائی بننا ہے ۔ عمران خان ڈاکٹرائن یہ بھی ’’دباؤ ڈال کر جائز ناجائز خواہش پایہ تکمیل تک پہنچائی جائے‘‘۔ جنرل عاصم منیر پر ایسا حربہ کارگر رہنا ہے نہ جنرل صاحب کو کسی ریلیف میں دلچسپی ہے ۔
غدار کون ؟ سوال بنتا ہے ۔ شیخ مجیب اور عمران خان کی سیاست کا موازنہ کرنا ہوگا ، جنرل یحییٰ اور جنرل عاصم میں مماثلت ڈھونڈنا ہوگی ۔ شیخ مجیب زندگی بھر کبھی اسٹیبلشمنٹ کے زیر استعمال نہیں رہا۔ جبکہ عمران خان کی 28 سالہ سیاست کا محور ، آغاز انجام سب اسٹیبلشمنٹ کا مرہون منت، یہ سب پروگرام 2 دہائی سیاست بطور مہرہ کے کی ۔ اگر تلہ سازش کیس اگرچہ حقیقت کہ1948سے آج تک ایسے ایشوز اور معاملات پر بھارتی مداخلت ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ، اکثر ملزموں نے فخریہ اعتراف کیا ۔ بھارت اورRAW نے اِسے تاریخی کارنامہ بتلایا ۔ برسوں بعد 2011، ممبر پارلیمان کیپٹن سخاوت علی نے بنگلہ دیشی پارلیمان میں فخریہ اعتراف کیا کہ جب وہ پاکستانی فوج میں تھا تو چند ساتھیوں کیساتھ اگر تلہ تری پورہ میں بھارتی RAW کیساتھ مل کر علیحدگی کی منصوبہ بندی کی۔
شیخ مجیب متوازی پلان بڑھا رہا تھا ، مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنےکی کوشش بھی جاری رکھنی تھی اور متحدہ پاکستان میں قومی سیاست کیساتھ بنگالی قومیتی شناخت بھی مضبوطی سے تھام رکھی تھی ۔ مغرب کی طرف منہ، پاکستان متحدہ رہے تو نکات منوانا تھا ، مشرق کی طرف منہ کرکے علیحدگی پسندوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی بھی کرنی تھی ۔ اگر تلہ سازش کیس میں مجیب الرحمن کو براہ راست ملوث کرنا پورا سچ نہیں تھا اور پھر عوامی و سیاسی دباؤ پر ایک سال بعد واپس لینا مجرمانہ فعل اور غلطی تھا۔عمران خان بتائے کہ RAW اور عوامی لیگ کے JOINT VENTURE میں عمران خان اور تحریک انصاف بھارت کیساتھ کہاں کھڑی ہے؟ کیا شیخ مجیب نے جنرل یحیٰی کی بطور آرمی چیف تعیناتی پر لانگ مارچ بھی کیاتھا ؟ تعیناتی سے پہلے آرمی چیف کیخلاف الزامات و دشنام طرازی کی بوچھاڑ روا رکھی تھی؟ عوام الناس کو اُکسایا تھا ؟
الیکشن 1970ءکے نتائج آج سامنے ہیں۔ عوامی لیگ نے بھرپور دھاندلی ضرور کی ،بغیر اسٹیبلشمنٹ کی مدد 313کی اسمبلی میں 161 سیٹیں جیتی تھیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ 2018ء الیکشن میں بدترین دھاندلی کے باوجود عمران خان کو 243 کے ایوان میں سادہ اکثریت نہ دلا پائی ۔ سیاسی انجینئرنگ، RTS نے جو اکثریت دلائی وہی تو اسٹیبلشمنٹ نے 2022 ءمیں چھینی تھی ۔ مجیب الرحمٰن کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ جملہ غیر معترضہ جبکہ عمران خان اور لواحقین جنرل کی گستاخی ( ذاتی تجربہ ) منہ نوچ لیتے تھے ۔ دونوں میں ایک مماثلت اور بھی ، دونوں کیخلاف درج مقدمات میں بہت کچھ سچ ، احمقانہ ٹرائل طریقہ ضرور ، دونوں نے اپنے مقدمات عوامی اور سیاسی دباؤ میں لا کر ختم کروانے میں کمال حاصل کیا ۔
آج پھر پاکستان کی جان شکنجے اندر پھنسی ہے، نکلنے کے سارے راستے مسدود ہیں۔ ماننے میں حرج نہیںکہ اسٹیبلشمنٹ کی 75 سالہ محنت شاقہ کا بڑا حصہ ہے۔ سیاستدان جرائم میں برابر کے شریک رہے۔ بعض سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوئے ، اقتدار کو ہاتھ سے جاتے دیکھا تو نعرہ مستانہ بلند کر دیا ۔ مستی میں پاکستان کیخلاف سازشوں میں بھارت کی شمولیت اپنی کامیابی کا زینہ سمجھے۔ تف ہے ایسے لوگوں پر جو اقتدار سے باہر ہوتے ہی پاکستان کو ہلکان رکھنے میں جُت جاتے ہیں ۔ رہنما اصول ایک ہی’’ملک کو کمزور کرکے فوج سے بدلہ لیا جائے‘‘، شرم!۔ یہی کچھ آج کی تحریک انصاف کا بیانیہ بھی اور یہی کچھ اِنکی عوامی لیگ سے مماثلت ہے۔ اسی کچھ نے تعین کرنا ہے کہ اصلی وطنی غدار کون ہے؟ کیا عمران خان لا شعور اور فرسٹریشن میں شیخ مجیب کی طرح پاکستان دشمنوں کے استعمال میں ہیں۔ ان سے اپنی اُمیدیں باندھ چکے ہیں۔
عمران خان چشم تصور میں سال 1971ءاور پاکستان کو ہلکان دیکھ رہے ہیں۔ ایسی توقع اس لئے کہ اس حال تک ملک کو اُنکے ادارے ہی نے پہنچایا ہے۔ جنرل منیر بچائے گا پاکستان !
بشکریہ روزنامہ جنگ