ناکارہ۔۔۔۔از بنت قمر مفتی


” گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کچھ علامات آپ کے بچے میں واضح ہونے لگ جائیں گی “۔ ڈاکٹر کا یہ جملہ کسی بم سے کم نہ تھا .
احمد صاحب یہ سب اللہ کی طرف سے ہے انسانی جسم میں کمی رہ جاتی ہے ۔آپ اپنے بچے کو پڑھائیں قابل بنائیں ۔ اس بات کو بھول کر کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا ہے ۔ ڈاکٹر نے احمد کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا
“آخر اس کی شادی کرنی ،زندگی میں آگے بڑھنا ، نسل بڑھانا ، زندگی کی خوشیاں ۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے ڈاکٹر صاحب کہ میری اولاد نامکمل ۔۔۔۔۔ ” ۔ احمد نے اپنے خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا
“مکمل ذات توصرف خالق کائنات کی ہے احمد صاحب، ہم انسان تو ادھورے ہی ہیں ۔ شادی ہی سب کچھ نہیں ہوتی ، بہت سے لوگ شادی کرکے بھی خوش نہیں رہتے ، شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں ۔ اللہ تو اپنی مخلوق سے بہت محبت کرتا ہے ۔ کسی کو ادھورا بنانے میں بھی کوئی حکمت ہوگی ۔ شاید ہمارے لئے کوئی آزمائش یا سبق، آپ اپنی اولاد کی خوشی منائیں کسی کو اس کی کمی بتانے کی کیا ضرورت ہے ۔ ایک نارمل انسان کی طرح اس کی پرورش کریں ۔ معاشرے میں ایک نئی مثال بنائیں ” ڈاکٹر صاحب نے احمد کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا ۔
” اس کی ڈھال بن جائیں اس کی ظاہری حالت سے یہ اندازہ لگانا اتنا بھی آسان نہ ہوگا ۔ اگر آپ یہ فرق اپنے ذہن میں رکھیں گے تو نہ صرف آپ کے اپنے لئے بلکہ اس بچے کے لئے بھی تکلیف دہ ہوگا ۔
علی دو سال کا ہوگیا تھا، حنا کی جان تھا وہ لیکن احمد اسے باپ۔کاوہ پیار نہ دے سکا جو علی کا حق ۔ حنا احمد کے اس رویے سے دل ہی دل میں سہم جاتی تھی کہیں احمد علی کو گھر سے دور نہ کردے جس طرح کے واقعات وہ ایسے لوگوں کے متعلق سن چکی تھی ۔ سلمیٰ آپا واحد حوصلہ تھیں ۔ انہوں نے یقین دلایا تھا کہ اگر احمد نے خدا نخواستہ علی سے قطع تعلق کرلیا تو وہ علی کو گود لے لیں گی ۔
علی چار سال کا ہوا تو حنا کا ہاں جڑواں بیٹوں نے جنم لیا ۔ نومولود بچوں میں کوئی جسمانی نقص تو نہیں احمد نے اچھی طرح تسلی کروائی ۔ رضوان اور سلمان کے آتے ہی احمد نے علی کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ۔ زچگی کے دنوں میں حنا بھی علی کا خیال نہ رکھ پائی اور احمد کی توجہ کا مرکز بھی اب صحت مند جڑواں بچے تھے ۔ علی بری طرح بیمار پڑ گیا ۔ حنا نے علی پر توجہ مرکوز کردی ۔وہ نومولود سے لا پرواہی نہیں برت رہی تھی لیکن اس وقت علی بہت بیمار تھا اور اسے توجہ کی ضرورت تھی ۔ احمد کی علی کے لئے بے اعتنائی نے حناکو رنجیدہ کردیا تھا ۔ جبکہ احمد کی نظر میں حنا علی پر توجہ اور دونوں بچوں سے لاپرواہی برت رہی تھی ، اسی سوچ پر حنااور احمد کی بحث جھگڑے تک پہنچ گئی ۔
آخر سلمی آپا نے آکر ان کے درمیان جھگڑا ختم۔کرنے کی کوشش کی اور علی کو اپنے گھر لے گئیں ۔
سلمی پہلے ہی اولاد کے لئے ترسی ہوئی تھی ۔ اس نے علی کوبہت پیار سے رکھا ۔ سلمیٰ جڑواں بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی علی کے ساتھ بہت مانوس ہوچکی تھی ۔ اسکے دل میں یہ وسوسہ تھا کہ اور اولاد کے بعد کہیں احمد علی سے متنفر نہ ہو جائے ۔
سلمیٰ آپا علی کو لے کر آئیں تو حنا کھل گئی ۔” مما یہ دیکھیں مجھے بڑی مما نے سپائیڈر مین والی فٹبال لے کر دی ہے ” علی نے ماں کے ساتھ لاڈ کرتے ہوئے کہا ۔
حنا نے اسے پیار کرتے ہوئے گود میں لٹا لیا اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی ۔
“مما کی یاد نہیں آئی علی کو ” حنا نے اس کی گال پر پیار سے چٹکی لیتے ہوئے کہا
“آئی تھی میں رویا تھا پھر بڑی مما نے کہا کہ آپ بیمار ہیں اسی لئے ابھی آپ آرام کر رہی ہیں ۔ ” علی حنا کی گود سے اٹھتے ہوئے بولا
“میں بڑی ماما کے ساتھ سکول بھی گیا تھا۔۔۔۔ میں بھی اب سکو ۔۔۔ ” ابھی علی کا جملہ مکمل نہ ہوا تھا کہ احمد کمرے میں داخل ہوا ۔
علی باپ کی طرف بڑھا تو احمد نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے باہر جانے کا کہا۔ علی مڑ کر حسرت سے باپ کو دیکھتا رہا ۔
“میں اسے سکول نہیں بھیج رہا ۔ آواز سنی ہے اس کی ایسی نازک سی جیسے کسی لڑکی کی ہو ۔ شکل سے بھی نسوانیت چھلکتی ہے ۔ مجھے بے عزتی نہیں کروانی اپنی” احمد نے فیصلہ کن انداز میں کہا
“کیسی باتیں کر رہے ہیں احمد ، بچہ ہے آپ کا ، آپ اسکی کمزوری کی ڈھال بنیں نہ کہ اسے یوں اکیلا کر کے کمزور کریں ۔ اس کا بھی حق ہے کہ وہ عام بچوں کی طرح تعلیم۔حاصل کرے اور ایک مہذب شہری کی طرح معاشرے کاحصہ بنے ” حنا احمد کی باتوں سے تڑپ کر بولی
“بس مجھ میں ہمت نہیں لوگوں کاسامنا کرنے کی “احمد نے ہاتھ اٹھا کر حتمی انداز میں کہا ۔
“اللہ کاسامنا کر لو گے ” اب کی بار سلمی آپا بول پڑیں ۔
“جس نے تمہیں سات سال بعد اولاد دی ، ایسی اولاد جو تمہیں اب شرمندگی کا باعث لگ رہی ہے صرف اسی لئے کہ رب نے اسے مکمل نہیں بنایا ۔ سات سال۔جس رب کے آگے گڑگڑاتے رہے اس سے جھگڑا کر سکتے ہو؟
وہ جب پوچھے گا اتنے سال نہ دے کر جب دی یہ نعمت تو میرے بندے نے کفران نعمت کیا۔ اب دو بیٹے دے دئے ہیں تو تمہیں علی ناکارہ لگنے لگا ہے ۔ تم تو اپنی آزمائش میں ابھی سے ناکام ہوگئے ” سلمی آپا آپے سے باہر ہوگئیں ۔ انہوں نے سہمے ہوئے علی کا ہاتھ تھاما اور اسے لے کر گھر سے نکل گئیں ۔
” تمہاراوہ گڑگڑانا اولاد کی طلب کرنا ۔ یہ کمی اللہ کی طرف سے ہے اس میں ہمارایاعلی کا کوئی قصور نہیں تو ہم کیوں شرمندہ ہوں حنا نے احمد کا گریبان پکڑ کر اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا
“کیا معلوم احمد اللہ کا ہمیں سات سال ترساکر ایسی اولاد دینا ہمارے لئے امتحان ہو کہ ہم معاشرے کی سوچ بدل سکیں ۔ کیوں انہیں شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے ۔ کوئی ذہنی طور پر کمزور ہوتا ہے ، کوئی اپاہج ہو سکتا ہے کوئی اندھاکوئی گونگا ،ہماراعلی تو ان سب سے بہتر ہے وہ پڑھ لکھ کر اتنا قابل ہو سکتا ہے کہ خود کو بھی سنبھال لے اور دوسروں کو بھی” حنا نے احمد کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
احمد تذبذب کا شکار تھا ۔ سلمی آپا بھی سچ کہ رہی تھیں میں کفران نعمت کر رہا ہوں ۔ ساری رات احمد سوچتا رہا اس کے کانوں میں ڈاکٹر کے الفاظ گونجنے لگے ” شاید ہمارے لئے کوئی آزمائش یا سبق ، کسی کو اس کی کمی بتانے کی کیا ضرورت ہے ۔ ایک نارمل انسان کی طرح اس کی پرورش کریں ۔ معاشرے میں ایک نئی مثال بنائیں ” احمد نے دو نفل ادا کئے اور اللہ کے آگے گڑگڑانے لگا۔
اگلے دن احمد آفس سے آیا تو اس کے ہاتھ میں کتابیں بستہ اور کچھ کھلونے تھے ۔