مہنگی طوائفیں۔۔۔تحریر اوریا مقبول جان


برطانیہ کے شہر ایڈنبرا (Edinburgh) میں یکم جون 1947 سے ایک عالمی فلمی میلہ منعقد ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہ دنیا بھر میں منعقد ہونے والے تین بڑے فلمی میلوں میں سے ایک ہے۔ باقی دو فرانس کے شہر کینز میں 20 ستمبر 1946 سے اور اٹلی کے شہر وینس میں 6 اگست 1932 سے منعقد ہو رہے ہیں۔ ان تینوں میں ایڈنبرا کے میلے کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں سنجیدہ قسم کی ڈاکومینٹری فلموں کو پذیرائی دی جاتی ہے۔ ان ڈاکومینٹری فلموں کے موضوعات میں ایک تنوع تو ہوتا ہی ہے مگر ایسے موضوعات پر بھی لوگ اپنی ڈاکومینٹریاں بنا کر لاتے ہیں جن پر گفتگو کرتے ہوئے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ 2016 میں اس فلمی میلے میں جس ڈاکومینٹری فلم کو ایوارڈ ملا، وہ دنیا کے سب سے متنازعہ موضوع اسلحہ سازی اور عالمی سیاسی کرپشنتھا۔ اس فلم کا نام (Shadow World) ہے، اور اس کا بنانے والا جنوبی افریقہ کا ایک سابق سیاست دان ہے جس کا خاندان مشہور جمہوری حکمران ہٹلر کے خوف سے جرمنی سے جنوبی افریقہ منتقل ہوا تھا۔ اس کے خاندان کے چالیس افراد کو نازیوں نے قتل کر دیا تھا۔ دنیا کے آخری جنوبی کنارے پر آباد شہر کیپ ٹاؤن میں یہ شخص 16 مارچ 1964 کو پیدا ہوا۔ اس نے ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، پھر کیلیفورنیا کی مشہور برکلے (Berkeley) یونیورسٹی میں پڑھنے چلا گیا۔ واپسی پر وہ سیاہ فام لوگوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی مشہور سیاسی تنظیم افریقن نیشنل کانگریس (ANC) میں شامل ہو گیا۔ یہ ان رہنماؤں میں شامل تھا، جن کی طویل کوششوں اور قانونی مشاورتوں کے نتیجے میں جنوبی افریقہ میں 1994 میں عام انتخابات ہوئے۔ وہ انہی انتخابات کے نتیجے میں اسمبلی کا رکن بنا اور سات سال تک ممبر پارلیمنٹ رہا۔ اس دوران اسے ملک کے آڈٹ کمیشن کے ڈپٹی انچارج کی ذمہ داری سونپی گئی اور ساتھ ہی اسے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا رکن بھی بنا دیا گیا۔ ان دونوں ذمہ داریوں کے تحت، جب اس نے جنوبی افریقہ کی حکومت کی 6 ارب ڈالر کی اسلحہ کی خریداری پر تحقیق شروع کی تو اسے اپنی ہی پارٹی کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ نیلسن منڈیلا کی تربیت یافتہ افریقن نیشنل کانگریس نے تحقیقات کروانے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی اس شخص کو آڈٹ کمیشن اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے دونوں عہدوں سے برطرف کر دیا گیا۔ اس نے احتجاجا 2001 میں پہلے ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے استعفی دیا اور پھر سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کر لی۔ یہ شخص اینڈریو فینسٹن ہے، جو ان دنوں برطانیہ میں رہتا ہے، اخبارات میں مضامین لکھتا ہے اور ڈاکومینٹریز بناتا ہے۔ اس کی دو کتابیں دنیا بھر میں ایسی مقبول ہوئیں کہ عالمی منظر نامے پر چھا گئیں۔ ایک کتاب اس کے ذاتی سیاسی تجربات پر مبنی ہے جس کا نام “After the Party” ہے۔ اس کتاب میں اس نے افریقن نیشنل کانگرس کے اندرونی حالات بیان کئے ہیں، جبکہ اس کی دوسری کتاب بہت ہی دھماکہ خیز ہے۔ خوفناک حقائق کی بنیاد پر لکھی گئی یہ کتاب اس وقت مارکیٹ میں آئی جب دنیا دہشت گردی کیخلاف جنگ میں آگ اور خون میں نہا رہی تھی۔ 2011 میں چھپنے والی اس کتاب نے دنیا بھر میں ہونے والی اسلحہ سازی اور اس کی تجارت کو بے نقاب کیا ہے۔ کتاب کا نام “The Shadow World: inside the Global Arms Trade” پرچھائیں کی دنیا: عالمی اسلحہ تجارت کی اندرونی کہانی ہے۔ اسی کتاب میں موجود حقائق کی بنیاد پر بنائی جانے والی ڈاکومینٹری کو 2016 کے ایڈنبرا فلم فیسٹیول میں ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ڈاکومینٹری کا نام بھی “The Shadow World” ہے۔ اس ڈاکومینٹری کا آغاز جس فقرے سے ہوتا ہے وہ ایک بہت بڑی عالمی سچائی ہے۔ جدید دنیا میں یہ دوسرا فقرہ ہے جو میرے لئے انتہائی متاثر کن تھا۔ پہلا فقرہ مافیا پر لکھے گئے ماریو پوزو کے مشہور ناول گاڈ فادر (The God Father)کا افتتاحی فقرہ (Opening Sentence) ہے۔ “Behind Every Successful Fortune; There is a Crime” ہر بڑی کامیاب خوش بختی کے پیچھے ایک جرم ضرور ہوتا ہے۔ اور دوسرا فقرہ اس ڈاکومینٹری کا ہے اور وہ بھی اس کا افتتاحی فقرہ ہی ہے۔ “Politicians are more like a Prostitute, but they are more Expensive” سیاستدان طوائفوں سے ملتے جلتے ہیں مگر یہ کہ زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔ یہ فقرہ ایک ایسے شخص نے تحریر کیا ہے، جس کی تمام عمر ایک سیاہ فام ملک میں گزری ہے۔ وہ ملک جس پر پہلے وسائل کی وجہ سے دنیا کی مہذب گوری اقوام نے قبضہ کیا اور وہاں بدترین قابلِ نفرت غلامی کو رواج دیا۔ وہ خود بھی ایک گوری نسل سے تعلق رکھتا ہے، مگر اس نے اپنے ملک کے سیاہ فام محکوموں کی جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں جب صدیوں بعد یہ سیاہ فام محکوم برسرِاقتدار آ گئے، تو دنیا پر یہ عقدہ کھلا کہ یہ سیاہ فام لوگ ایک غلامی سے نکل کر اب دوسری غلامی میں داخل ہو چکے ہیں۔ پہلے وہ انفرادی طور پر گوروں کے گھروں، کارخانوں اور کھیتوں پر کام کیا کرتے تھے، لیکن اب وہ بحیثیت قوم اپنا سرمایہ اکٹھا کر کے مہذب گوروں کے اسلحہ کے کاروبار کی افزائش میں جھونک دیتے ہیں۔ وہ اتنا اسلحہ خریدتے ہیں کہ ان کے ملک میں موجود سونے کے ذخائر اور معدنیات بھی اس تجارت کا بوجھ نہیں اٹھا پاتیں اور انہیں مسلسل قرض لینا پڑتا ہے۔ جنوبی افریقہ اس وقت 216 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ وسائل سے مالا مال یہ ملک اگلی کئی صدیاں بھی یہ قرض اتارنے میں لگا دے، تب بھی اس سے نجات حاصل نہیں کر سکے گا۔ اینڈریو فینسٹن کے مطابق دنیا میں صرف ایک ہی اسٹیبلشمنٹ ہے اور وہ اسلحہ بنانے والوں اور اسلحہ خریدنے والوں کے درمیان برابر کی حصہ دار ہے۔ دنیا بھر کی تمام حکومتیں اور سیاست دان اس کاروباری مافیا کے یرغمال ہیں، بلکہ ان کے مطیع و فرمانبردار بھی ہیں۔ یہ واحد صنعت ہے جو انسانی خون کو سونے میں بدلتی ہے، ڈالروں میں تجہیم کرتی ہے۔ یہ دنیا کا واحد کاروبار ہے جس پر سب سے کم قانون لاگو کئے گئے ہیں یعنی یہ “Less Regulated” سیکٹر ہے۔ یہ دنیا بھر کے تمام کاروبار کا چالیس فیصد ہے، لیکن اس میں کرپشن اور کک بیک پچاس فیصد سے بھی زیادہ دیا جاتا۔ وہ اپنی کتاب میں کئی خریداری سکینڈلوں کا تذکرہ کرتا ہے، جن میں دنیا کی سب سے بدنامِ زمانہ اسلحہ خریداری کی مثال دیتا ہے، جسے الیمامہ ڈیل کہتے ہیں اس ڈیل میں ایک برادر ملک کے وزیر دفاع کے بیٹے اور خاندان کو چار ارب پونڈ کمیشن کے طور پر دیئے گئے تھے اور اس کیساتھ اس کی سالگرہ کے تحفے کے طور پر اسے چار جیٹ مسافر طیارے بھی دیئے گئے، جنہیں اس کی محبوب فٹ بال ٹیم “Dallas Cowboys” کے شناختی رنگ میں رنگا گیا تھا۔ خوفناک تفصیلات یہ ہیں کہ اسلحہ بیچنے والوں کی وکالت میں خود ملکہ برطانیہ اور شاہی خاندان بھی شامل ہوا اور عرب شہزادے کے دیگر نخرے اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کی برطانوی گرل فرینڈ کو لندن میں ایک فلیٹ بھی لے کر دیا گیا تھا۔ کتاب میں تمام ملکوں کے بارے میں خوفناک حقائق درج ہیں، جو اس شخص کی تحریروں میں کھلتے چلے جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا ایک بہت بڑے بازارِ حسن میں تبدیل ہو چکی ہے اور اسلحہ بیچنے والے اور اسلحہ خریدنے والے اس بازار میں باہم رقص کر رہے ہوں۔ نوٹ: ایک غریب سید زادی سلنڈر پھٹنے سے بری طرح جھلس گئی ہے جس کی وجہ سے سخت تکلیف اور غربت میں ہے۔ اہلِ خیر اس نمبر پر رابطہ کر کے اس کا علاج کروا سکتے ہیں۔ 0308-6109079

بشکریہ روزنامہ 92