پاکستان کا معاشی سقوط ہوچکاہے۔ ملک پر مہنگائی ، بے روزگاری، کرپشن اور بدترین حکمرانی کے گہرے سائے چھاگئے ہیں۔ملکی سیاست، پارلیمنٹ دفاع اور پوری معیشت کو عالمی ساہوکاروں عالمی بنک ، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اورفنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اپنے شکنجوں میں جکڑ لیا ہے۔آج ملک کا ہر شہری چاہے وہ امیر ہو یا غریب ، کسان ہو یا ہاری، مزدور ہو یا دکاندار ، کاروباری ہو یا صنعت کار، طالب علم ہو یا استاد ،خواتین ہوں یا بچے ،بوڑھے ہوں یا جوان ہر کوئی حکمرانوں کی پالیسیوں ، ظالمانہ ٹیکسوں اور ظالمانہ مہنگائی کی وجہ سے کراہ رہاہے اور کسی انقلاب کامنتظر ہے۔
آمرانہ حکومتوں اور نام نہاد جمہوری حکومتوں کاعوام کے ساتھ ایک ہی جیسا سلوک رہا ہے۔ پرویز مشرف ، مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے عوام پر مہنگائی اور بے روزگاری کے ایک ہی جیسےڈونگرے برسائےہیں۔ سب کا طرز حکمرانی اورطریقۂ واردات ایک جیسا رہاہے۔ اپنی حکومتوں کو دوام دینے کے لیے انہوں نے ملکی اور عالمی قوتوں کے ساتھ ساز باز کی ۔ پرویز مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘،پیپلز پارٹی نے ’’مساوات، روٹی کپڑا اور مکان‘‘، مسلم لیگ نے ’’اقداراور ترقی‘‘ اور تحریک انصاف نے ’’احتساب اور انصاف‘‘ کے نام پر سستی شہرت توحاصل کی مگر مساوات آئی نہ اقدار اور نہ احتساب ہوا۔ مقتدر قوتوں نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے بعد عمران خان کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا لیکن وہ اپنی حکومت مافیاز اور آئی ایم ایف کے حوالے کر بیٹھے۔
تحریک انصاف کے سوا تین سالہ دور میں کئی بحران قوم کو لوٹ کر لےگئے۔ ادویات کے سکینڈل میں وفاقی وزیرصحت کا نام سامنے آیا تو اسے تحریک انصاف کامرکز ی سیکرٹری جنرل بنادیاگیا۔چینی کابحران آیاتو اس میں وفاقی وزراء ملوث نکلے جنہوں نے ملکی خزانہ اور عوام کی جیبوں پر 184ارب روپے کاڈاکہ ڈالا۔ آٹے اور گندم کابحران آیا تواس میں ملوث صوبائی اور وفاقی وزراء نے قومی خزانے اور غریب عوام کی جیب پر 220ارب روپے کا دوسرا ڈاکہ ڈالا۔ بدترین گورننس کی وجہ سے پٹرو ل بحران میں قومی خزانے کوتحریک انصاف حکومت نے 25ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ توانائی بحران میں وفاقی حکومت کی آشیر باد سے آئی پی پیز نے 350ارب روپے کاغیر منصفانہ منافع کمایا۔ ایل این جی کے سکینڈل میں حکومتی نالائقی نے قومی خزانے کو100ارب روپے سے زائدکانقصان پہنچایا۔ پانامہ لیکس اور پنڈورا لیکس میں وفاقی اور صوبائی وزراء فیصل واوڈا، شوکت ترین اور علیم خان سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور اعلیٰ سابق سول اور فوجی افسروں کے نام آئے ۔یہاں تک کہ کووڈ کے فنڈ میں بھی 300اربوں روپے کی کرپشن کی خبریں بھی سامنے آئیں ۔ لیکن خدا کا غضب عمران خان نےاِن مافیاز کے خلاف کاروائی کی ، نہ بحرانوں کے ذمہ داروں کوقومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کیا۔جو کیس نیب میں چلائے گئے،نیب نے کرپٹ لوگوں کے احتساب کے بجائے انتقام اور میڈیا ٹرائیل کا سہارا لیا اور کسی ایک کیس کا فیصلہ بھی نہ کرسکا۔
تحریک انصاف کی حکومت کے سواتین سال میں پٹرول اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 110 فیصد اضافہ ہواجبکہ 13مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ 2019ء میں پٹرول کی فی لٹرقیمت 103.69روپے تھی جو بڑھ کر 150روپے فی لٹر تک پہنچ گئی ۔ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کی وجہ سے کھاد کا بحران پیداہوا تو ایک بوری 9500 روپے تک پہنچ گئی۔سٹیل ملز،ریلویز اور پی آئی اے کا خسارہ 234 ارب تک پہنچ گیا۔روپیہ کی قدر ’’افغانی‘‘ سے بھی کم ہو گئی۔2018ء میں 122.85 روپے کا ایک ڈالر تھا جو اب 177روپے کا ہو گیا ہے۔ قرض لینےکے بجائے خودکشی کو ترجیح دینے والے عمران خان حکومت میں کل قومی قرضہ 56ہزار350ارب روپے تک پہنچ گیا۔معاشی عدم استحقام کی وجہ سےاسی دورِحکومت میں سٹاک ایکسچینج کریش ہوئی تو حصہ داروں کے 3کھرب 32ارب روپے ڈوب گئے۔
وزیراعظم نے عوام سے درجنوں وعدے کئے جس میں سے ایک وعدہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کاتھا مگر روزگار تو کیا اُلٹا سوا دو کروڑ افراد اُن کی وزارت عظمیٰ میں بے روزگار ہو گئے جبکہ 5لاکھ نوجوان ڈگریاں لئے ملازمتوں کاانتظار کرتے رہ گئے۔ وزیراعظم نے نوید سُنائی کہ 2022ء پاکستان کی اقتصادی ترقی کا سال ہو گا مگر سالِ نو میں قوم کو مِنی بجٹ کا تحفہ دےدیا ۔آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض حاصل کرنے کے عوض عوام پر 360ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے۔ ڈبل روٹی ، دودھ اورنمک پر ٹیکس لگانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔پٹرول،آٹا،چینی، گھی ، چائے، سبزیاں ، انڈے اور ادویات کی قیمت میں نہ صرف ہوشربا اضافہ کیا بلکہ کئی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کے علاوہ ادویات پر 160ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ بھی واپس لےلی مگر اشرافیہ اور اُمراء کو دی گئی ساڑھے چار کھرب روپے کی ٹیکس چھوٹ واپس نہ لی۔بعدازاں یہ کہہ کر عوام کے زخموں پر نمک چھڑک دیا کہ مِنی بجٹ سے عوام پر بوجھ نہیں پڑے گا۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر رضا باقر کو پہلےگورنر سٹیٹ بینک مقرر کیا اور پھر سٹیٹ بنک آف پاکستان کو خود مختاری دے کر گورنر کو عملاً مالیاتی وائسرائے بنادیا اور اس کی ماہانہ تنخواہ کو عوام سے مخفی رکھ کر ہر خاص و عام کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ ریاست کے ماتحت ہیں ، نہ آئینِ پاکستان کے تحت پارلیمنٹ اور حکومت کو جوابدہ ۔
2022ء کےمِنی بجٹ اور سٹیٹ بنک کی خودمختاری کے بِل کو منظور ہونے سے روکا جاسکتا تھا مگر اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے عوام کے معاشی قتل اور ریاست کی نظریاتی اور معاشی آزادی کے خاتمے کے وقت حکومت کا ساتھ دیا۔ اُنہوں نے ایسا تعاون ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر قانون سازی کے وقت بھی کیا تھا۔اپوزیشن جماعتیں چاہتیں تو مِنی بجٹ میں سبسڈی اور ٹیکسوں پر چھوٹ کے خاتمے اور اشیائے خوردونوش سمیت پٹرول،بجلی،آٹا،گھی،گیس کی قیمتوں میں اضافہ کو روک کر عوام کا ساتھ دے سکتی تھی۔ وہ مہنگائی اور معاشی غلامی کے خلاف راست اقدام اقدام بھی اُٹھا سکتی تھی مگراُس نے صرف سیاسی پوئنٹ سکورنگ کی کیونکہ اپوزیشن جانتی تھی کہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد اُنہیں بھی آئی ایم ایف اور مقتدر قوتوں کی ڈکٹیشن پر ہی چلنا ہے۔
ملک کے اس معاشی سقوط پر ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے تاہم پی ٹی آئی حکومت میں فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیرمین شِبرزیدی نے سلطانی گواہی دی ہےکہ ملک کا معاشی دیوالیہ ہو چکا ہے جبکہ موجودہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے برطانیہ جا کرانکشاف کیاکہ آئی ایم ایف کا قرض لینے کے لئے حکومت نے آئی ایم ایف کو سب کچھ لکھ کر دے دیا ہے یعنی ملک گروی رکھ دیا گیاہے۔ اس خطرناک معاشی سقوط پر بھی بڑی سیاسی جماعتوں نے سیاسی نقارخانے میں آواز بلند نہیں کی۔ صرف جماعت اسلامی پاکستان نے مہنگائی اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات کے لئے قومی سطح پر احتجاجی تحریک چلانے اور 101 دھرنوں کا اعلان کیا اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مِنی بجٹ واپس لے ۔ آٹا ، گھی ،پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں فوری طور پر 50فیصد کمی کرے۔آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے دباؤپر کی گئی قانون سازی منسوخ کرے، گورنر سٹیٹ بنک باقر رضا کو فوری طور پر عہدے سے برطرف کرےاور سُودی معیشت کے خاتمے کا اعلان کرے ورنہ مستعفی ہو جائے۔
ملک کی معاشی آزادی،یکجہتی،سالمیت،خود مختاری اور دفاع کی خاطراور بدترین مہنگائی اور بے روزگاری خلاف اس عوامی جدوجہد میں اگر بڑی سیاسی جماعتیں،نوجوان،خواتین، طلبہ و طالبات، دانشورو، صحافی ، اساتذہ ، مزدور، صنعتکار،کارخانہ دار، کسان ، دکاندار، ڈاکٹر، انجینئراورتاجر بھی دل و جان سے شامل ہوگئے تو حکومت کومطالبات منظور کرنے یا مستعفی ہونے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔