ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کی تائید سے ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف مزاحمت کریں گے۔عنایت اللہ خان

پشاور(صباح نیوز) جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے نائب امیر اور سابق صوبائی وزیر عنایت اللہ خان نے کہا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن ٹیکس فری زون ہے لیکن اب اس پر ٹیکسوں کے نفاذ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ملاکنڈ ڈویژن کی ایک مخصوص حیثیت ہے اور اسے ٹیکسوں سے مسلسل استثنا دیا جاتا رہا ہے۔ حکومت نے ملاکنڈ ڈویژن کے پاکستان کے الحاق کے وقت وعدہ کیا تھا کہ یہاں ٹیکس نہیں لگایا جائے گا لیکن اب حکومت اپنے وعدوں سے مکر رہی ہے۔ جماعت اسلامی ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف نہیں ہے، ٹیکسوں سے ملک کی معیشت کو سہارا ملتا ہے، لیکن ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں ترقی کے اعشاریے باقی ملک سے بہت کم ہیں۔ ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف جماعت اسلامی تاجر تنظیموں اور عوام کو اپنے ساتھ ملائے گی۔ تاجر تنظیموں کے شٹر ڈان ہڑتال سمیت تمام ٹیکسوں کے خلاف سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی دعوت ہے کہ ہمارے ساتھ احتجاج میں شریک ہوں۔ 13 مئی کو پشاور میں پریس کانفرنس اور 15 مئی کو جماعت اسلامی ملاکنڈ ڈویژن کی قیادت سے مشاورت کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ حکومت نے ٹیکسوں کے نفاذ کا فیصلہ واپس نہ لیا تو بڑے جلسوں، دھرنوں اور شٹر ڈان ہڑتالوں، سیمینارز اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آپشن موجود ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کی تائید سے ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف مزاحمت کریں گے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے المرکز الاسلامی پشاور میں جماعت اسلامی ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع کے امرا کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں جماعت اسلامی باجوڑ کے امیر صاحبزادہ ہارون الرشید، دیر لوئر کے امیر اعزاز الملک افکاری، سوات کے امیر حمید الحق، بونیر کے امیر محمد حلیم باچا اور ملاکنڈ کے امیر شہاب حسین سمیت دیگر امرا اضلاع موجود تھے۔ اجلاس میں حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کے نفاذ کے فیصلے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔

عنایت اللہ خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کا ٹیکس کا نظام بے انصافی پر مبنی ہے۔ پاکستان میں غریبوں سے ٹیکس لے کر امیروں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ٹیکسوں کے نفاذ سے ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کی معاشی اور معاشرتی زندگی شدید متاثر ہوگی۔حکومت دس سال تک مزید ٹیکسوں سے استثنی دے، اس دوران اگر حکومت ٹیکسوں کا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے تو منتخب نمائندوں، تاجر تنظیموں، عمائدین اور وکلا کو اعتماد میں لیا جائے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ ملاکنڈ ڈویژن کو ترقیاتی کاموں کے لیے پیکج دیا جائے اور قبائلی اضلاع اضلاع کے ساتھ کیے گئے تمام وعدے پورے کیے جائیں، توقع ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع کے منتخب نمائندے حق نمائندگی ادا کرتے ہوئے حکومت پر اس سلسلے دبا ڈالیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں سروسز پر سیلز ٹیکس فار سیل لیا جا رہا ہے، سرکاری ملازمین کو تنخواہوں سے بھی انکم ٹیکس کی مد میں کٹوتی کی جارہی ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع کے اندر رجسٹرڈ گاڑیوں کے مالکان بھی اپنی گاڑیوں کے ٹیکسز جمع کرا رہے ہیں، لوکل گورنمنٹ بھی مختلف جگہوں پر لوگوں سے مختلف صورتوں میں ٹیکس لے رہی ہے۔اس لیے ٹیکسوں کا بہت بڑا حصہ پہلے سے ہی ملاکنڈ ڈویژن پر نافذ ہے۔ہماری مزاحمت نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر ٹیکس، انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور صوبائی حکومت کی جانب سے سیلز ٹیکس آن سروسز کے خلاف ہے۔

انھوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ چونکہ ملاکنڈ ڈویژن آفت زدہ ہے، یہاں غربت کے ڈیرے ہیں، قدرتی آفات اور دہشتگردی نے ملاکنڈ ڈویژن کو شدید متاثر کیا ہے، قبائلی اضلاع بھی بدامنی کا شکار ہیں اور وہاں بھی آپریشن چل رہے ہیں، جب تک ان مسائل پر قابو نہیں پایا جاتا اس وقت تک ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع کو ٹیکس سے مستثنی قرار دیا جائے۔