بغاوت کامیاب ہو جائے تو انقلاب کہلاتی ہے، ناکام ہو جائے تو غداری۔ تاریخ کا اٹل اصول ہے کہ بغاوت کو کچلنے کی کارروائی کے دوران یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ارتکاب کرنے والے فوجی ہیں ، جج ہیں، بااثر طبقات کے نمائندے ہیں یا عام شہری بلکہ تمام ملوث کرداروں کو بلا تفریق نمونہ عبرت بنا دیا جاتا ہے، ایسا کرنا اس لیے لازم ہوتا ہے کہ دوبارہ کوئی سر اٹھانے کی جرات نہ کرسکے اور اگر کوئی اور بھی ایسا سوچ رہا ہے تو تائب ہوجائے۔ ایسے واقعات پر نرمی دکھانے کا صرف ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ بارودی سرنگوں پر چادر ڈال دی جائے جو کسی بھی لمحے دھماکوں کے ساتھ پھٹ سکتی ہیں۔ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نو مئی 2023 کوآرمی چیف جنرل عاصم منیر کا تختہ الٹنے کی سازش کی گئی۔ اس منصوبے میں کون کون شامل تھا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے اسے واضح انداز میں ظاہر نہیں کیا ۔ یہی سب سے بڑی اور بنیادی غلطی تھی جوآج تک مزید خرابیوں کا سبب بن رہی ہے۔ دراصل سپر ایلیٹ کلاس کو یہ گمان ہی نہیں تھا کہ جنرل باجوہ کے بعد جنرل عاصم منیرآرمی چیف بن سکتے ہیں۔ ایک تو جنرل باجوہ خود تیسری ٹرم کے امیدوار تھے۔ دوسری جانب انہوں نے ان سینئر جرنیلوں کو بھی لارا لگا رکھا تھا جو جنرل فیض کی جانب سے خود کو تقرر سے پہلے آرمی چیف کے طور پر پیش کرنے پر ناراض بلکہ غصے میں تھے ۔ نو مئی کا ماسٹر پلان یہی تھا کہ جب ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوں گے تو دباو اس قدر بڑھے گا کہ جنرل عاصم منیر عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے پھر صدر علوی عدالتوں کی مدد سے اگلے آرمی چیف کے نام کا اعلان کردیں گے۔ تیاریاں اس حد تک مکمل تھیں کہ نو مئی کو گھیراؤ، جلاؤ کرنے والے شرپسندوں کو ضمانتوں کی پیشگی یقین دہانیاں کرا دی گئی تھیں ۔ ملکی تاریخ میں عمران خان سے پہلے نواز شریف اور بینظیر سمیت جتنے بھی وزرائے اعظم کو فارغ کیا گیا اصل حکمران اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ اور کارٹلز ( بڑے کاروباری گروپوں ) نے انہیں ہٹانے کی کھل کر حمایت کی ۔ پی ٹی آئی کی مرتبہ ایسا نہیں ہوا کیونکہ ان تینوں طبقات کے مفادات ہائبرڈ رجیم سے جڑ چکے تھے ۔ اس سے پہلے ہی معاملات اس حد تک بگڑ چکے تھے کہ فوج اور اس کی ایجنسیوں کے بل پر بھاری معاوضوں والی نوکریاں لینے والے اینکر اور ففتھ جنریشن وار کے یوٹیوبر کھلے عام جنرل عاصم منیر کوآرمی چیف بنائے جانے کی مخالفت کررہے تھے ۔ نو مئی کے فوری بعد جس طرح گرفتار عمران خان کو سپریم کورٹ میں مدعو کرکے گڈ ٹو سی یو کہا گیا وہ اس امر کا ثبوت تھا کہ منصوبہ سازوں کو اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا ۔ بندیال گروپ کے حکم پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو رہا کیا تو انہوں نے چیلنج دینے کے انداز میں نو مئی کے واقعات پر فخر کرتے ہوئے کہا مجھے پھر پکڑا تو پھر ایسا ہی ہوگا ۔ قوم حیرانی کے عالم میں یہ مناظر دیکھ رہی تھی کہ جنرل عاصم منیر خود حرکت میںآگئے، مختلف شہروں میں جاکر دہشت گردی سے متاثرہ تنصیبات کا جائزہ لیا اور سیکورٹی اہلکاروں کا حوصلہ بڑھایا۔ یہ لغو بات ہے کہ اس روز قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حملہ آوروں کو کیوں نہیں روکا۔ پہلی بات تو یہ ہے سازش بہت بڑی اور گہری تھی ، دوسرے یہ کہ ماسٹر مائنڈ زیادہ سے زیادہ لاشیں ہی تو چاہتا تھا۔ یاد کریں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں دس افراد کی ہلاکت اور درجنوں کے زخمی ہونے کے بعد دھرنوں کی پلاننگ کرنے والی شخصیات ہسپتالوں میں ایسے خوش خوش گھوم رہی تھیں جیسے ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔ واپس آتے ہی نو مئی کی جانب، جب یہ نوٹ کیا گیا کہ جنرل عاصم منیر نے فوج کی صفوں کو سیدھا کرلیا ہے اور سول حکومت کو بھی سہارا دیا تو سپریم کورٹ پھر حرکت میں آ گئی ۔ اس سے پہلے ایک مشہور زمانہ آڈیو لیک میں بندیال کی ساس اس حسرت ناتمام کا اظہار کرتے پائی گئی کہ کمبخت مارشل لا بھی تو نہیں لگا رہے یعنی ججوں کے گھروں میں یہ آپشن بھی زیر بحث تھا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں بننے والی پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کی حکومت کے ساتھ جمہوریت بھی فارغ ہو جائے تو جنرل عاصم منیر گھیرے میں آجائیں گے ۔ یہی سوچ کر توہین عدالت لگا کر وزیراعظم شہباز شریف سمیت چار اہم وفاقی وزرا کو نااہل کرکے حکومت گرانے کے لیے عدالتی سٹیج تیار کیا گیا۔ منصوبہ ساز یہی سوچ رہے تھے کہ حکومت ختم ہونے کے بعد جنرل عاصم منیر کے پاس مارشل لا لگانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہے گا ۔ بعد میں ان سے بھی نمٹ لیا جائے گا ۔ ملک، جمہوریت اور خصوصا فوج کے لیے یہ بہت نازک موڑ تھا ۔ اس موقع پر جے یوآئی (جس کی دو سو سالہ تاریخ تشدد سے پاک ہے) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پوری قوت کے ساتھ میدان میں آئے ۔ ایک دن کے نوٹس پر سپریم کورٹ کے سامنے لاکھوں کارکنوں کو جمع کرکے بندیال کورٹ باز رہنے کی وارننگ دی ۔ بندیال اور انکے ساتھی جو پہلے ہی عمران خان کی محبت میں آئین تک ری رائٹ کرچکے تھے مشن ادھوار چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ یقینا ایک ہفتے پہلے ہونے والے نو مئی کے مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے تھے جس میں سپر ایلیٹ کلاس کی برگر فیملیوں نے مٹھی بھر شرپسندوں کو خود لیڈ کرکے کئی عسکری تنصیبات جلا کر خاکستر کر ڈالی تھیں ۔ ایسے میں ان ججوں کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ جے یوآئی کے جانثار کارکنوں کو قیادت نے جو بھی حکم دیا اس پر فوری اور بھرپور عمل درآمد ہوگا اور کوئی چاہ کر بھی روک نہیں پائے گا ۔ یہ اپنی جگہ بہت بڑا المیہ ہے اس کڑے وقت میں مولانا فضل الرحمن نے آگے کنواں، پیچھے کھائی کی صورتحال میں پھنسے ہوئے جن حلقوں کی مدد کی انہوں نے طوطا چشمی اور بے وفائی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ریاست کی جانب ہر طرح کے قانون سے آزاد سپر ایلیٹ کلاس اور اپنے منحرف ساتھیوں کے خلاف فیصلہ کن اور قرار واقعی ایکشن نہ لینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ آج تمہاری تو کل میری باری نہ لگ جائے۔ بالکل ویسے ہی جیسے موجودہ آرمی چیف نے نو مئی کے بعد اپنے سابق باس جنرل باجوہ کو ساتھ بیٹھا کر ان کیان ٹچ ایبل ہونے کا پیغام دیا تھا۔ اسی ذہنیت نے فوج میں بغاوت کی ایک خطرناک کوشش کو بھونڈا مذاق بنا دیا ۔ اعجاز الااحسن اور مظاہر نقوی جیسے ایک جھٹکے کی مار نکلے تو ان جیسے باقی کیا ہیں؟ قانون کے نفاذ کے لیے طاقت کو بروقت استعمال نہ کیاجائے تو شرارتی عناصر شہہ ملتی جاتی ہے پھر تمام شعبے بے قابو ہوجاتے ہیں۔ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بیرونی ہاتھ تو ہر وقت سرگرم رہتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرس میں جن جذبات کا اظہار کیا ان کا احترام ہے لیکن فتنے کی سرکوبی صرف جذبات ظاہر کرنے سے نہیں ہوگا۔مجرموں کو انجام تک پہنچانے کے لیے کچھ کرنا ہے تو اپنے لائحہ پر نظر ثانی کرلیں۔