نئی ہیرا منڈی : تحریر حامد میر


امریکی دوست نے کئی سال کے بعد رابطہ کیا اور ایک ایسی فرمائش کر دی جو میرے لئے انتہائی غیر متوقع تھی۔وہ آج کل کینیڈا کے ایک پروڈکشن ہاؤس کے ساتھ بطور اسکرپٹ رائٹر کام کرتا ہے ۔اس کے ایک مالدار سکھ دوست نے حال ہی میں بھارت کے معروف فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی کی بنائی گئی ڈرامہ سیریز ہیرا منڈی نیٹ فلیکس پر دیکھی اور اسے ہیرامنڈی پر ایک دستاویزی فلم بنانے کا خیال چرایا۔ ہیرا منڈی لاہور میں ہے اور لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے لہٰذا امریکی دوست کو میں یاد آگیا۔اس کا ڈائریکٹر اس پروجیکٹ پر کام کرنے سےپہلے یہ پتہ کرنا چاہتا تھا کہ جو ہیرا منڈی نیٹ فلیکس پر دکھائی گئی ہے اس کے کچھ آثار لاہور میں موجود ہیں یا نہیں ؟میں نے سنجے لیلا بھنسالی کی ہیرا منڈی ابھی نہیں دیکھی تھی لہٰذا دوست سے کہا کہ میں فی الحال کوئی رائے نہیں دے سکتا۔اس نے کہا کہ تم اسے دیکھ لو پھر بتانا۔نیٹ فلیکس پر ہیرا منڈی کی آٹھ قسطیں دیکھنا کافی مشکل تھا لیکن اس ناچیز نے کسی نہ کسی طرح یہ آٹھ قسطیں دیکھ ڈالیں اور اپنے دوست کو پیغام بھیجا کہ نیٹ فلیکس والی ہیرا منڈی صرف ایک ڈرامہ ہے اور اس ڈرامے میں دکھائی گئی طوائفوں سے لیکر عمارتوں تک کوئی بھی آج کے لاہور میں موجود نہیں لہٰذا ہیرا منڈی پر دستاویزی فلم بنانے کی کوشش وقت کا ضیاع ہو گی۔دوست نے پوچھا کہ کیا لاہور میں کوئی ایسا تاریخ دان یا محقق موجود ہے جو اسے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں لاہور کی طوائفوں کے کردار پر کچھ مواد مہیا کر سکے؟میرے ذہن میں فوری طور پر مستنصر حسین تارڑ صاحب کا نام آیا جنہوں نے اپنی کتاب ’’لاہورآوارگی ‘‘ میں ہیرا منڈی کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔میں نے دوست سے کہا کہ اپنے سکھ دوست کے ذریعے تارڑ صاحب سے رابطہ کر لو لیکن لیاقت علی سندھو کی کتاب ’’لاہور کی کھوج‘‘ بھی منگوا لو جس میں بتایا گیا ہے کہ لاہور کی اکثر طوائفوں نےتحریک آزادی کے مجاہدوں کی بجائے انگریزوں کاساتھ دیا تھا۔مسئلہ دراصل یہ تھا کہ نیٹ فلیکس پر دکھائی جانے والی ہیرا منڈی میں ایک طوائف بیبو جان تحریک آزادی کے مجاہدوں کیلئے انگریزوں کی مخبری کرتی ہے اور ایک انگریز پولیس افسر پر گولی بھی چلاتی ہے۔ اس قسم کا کوئی کردار مجھے مستنصر حسین تارڑ صاحب کی کتاب میں نہیں ملا البتہ 1857ءکی بغاوت میں کان پور کی ایک طوائف عزیز النساء نے باغیوں کا کھل کرساتھ دیا تھا۔یہ طوائف عزیزن بائی کے نام سے مشہور تھی ۔اسکی دیکھا دیکھی لکھنؤ کی طوائفوں نے بھی بغاوت کی اور پھر واراناسی میں حسینہ بائی نے ایک ’’طوائف سبھا‘‘ بھی بنائی ۔سنجے لیلا بھنسالی کے لئے لکھنؤیا واراناسی کی طوائفوں پر ڈرامہ بنانا زیادہ آسان تھا لیکن انہوں نے عزیزن بائی اور حسینہ بائی کے کردار کو لاہور کی ہیرا منڈی میں فلما کر ایک نئی بحث چھیڑ دی۔

آج کل پاکستان میں یہ بحث چل رہی ہے کہ نیٹ فلیکس پر دکھائی جانے والی ہیرا منڈی اور لاہور کی اصلی ہیرا منڈی میں کیا فرق ہے ؟جب میں سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال لاہور میں پڑھتا تھا تو انٹراسکول کرکٹ ٹورنامنٹ کے اکثر میچ مینار پاکستان کے سائے تلے اقبال پارک میں ہوتے تھے۔ہم صبح صبح اسکول سے تانگوں میں بیٹھ کر اقبال پارک پہنچتے اور شام کو میچ ختم ہونے پر ہیرا منڈی کے راستے سے پیدل بھاٹی گیٹ آتے۔یہ ہیرا منڈی سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ہماری کرکٹ ٹیم کے دو کھلاڑیوں کا تعلق ہیرا منڈی سے تھا اور کبھی کبھی ہم اسلامیہ کالج سول لائنز سے میچ جیت کر پھجے کے پائے کھانے ہیرا منڈی چلے جاتے۔اسی زمانے میں ہم نے شورش کاشمیری کی کتاب ’’اس بازار میں‘‘ پڑھ لی اور ہمیں ان طوائفوں سے ہمدردی ہو گئی۔صحافت میں آئے تو ہیرا منڈی سے تعلق رکھنے والی ایک فلم ایکٹریس نادرہ قتل ہو گئی۔اس قتل پر ایک تحقیقاتی فیچر لکھنے کیلئے نیشنل کالج آف آرٹس کے ایک استاد اقبال حسین کے پاس بار بار ہیرا منڈی جانا ہوتا تھا اور وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ ہیرا منڈی کی طوائفیں علامہ اقبال ٹاؤن اور ڈیفنس کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔

سنجے لیلا بھنسالی نے نیٹ فلیکس پر جو ہیرا منڈی دکھائی ہے اس میں بڑی بڑی عالی شان حویلیاں ہیں جو آج کی اصلی ہیرا منڈی میں کہیں نظر نہیں آتیں۔اس ڈرامے میں جو نواب دکھائے گئے ہیں وہ انگریزوں کے زمانے میں لکھنؤ میں تو موجود تھے لیکن لاہور میں نہیں تھے۔سنجے لیلا بھنسالی کیلئے اس ڈرامے کا سکرپٹ معین بیگ نے لکھا ہے۔ ڈرامہ تو ڈرامہ ہوتا ہے جس میں حقیقت اور افسانے کا امتزاج بنانا ایک پرانی روایت ہے ۔عام خیال یہ ہے کہ لاہور کی ہیرا منڈی مغلوں کے دور میں قائم کی گئی لیکن ’’تاریخ لاہور‘‘ کے مصنف کنہیا لال ہندی بتاتے ہیں کہ لاہور کی طوائفوں کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں عروج حاصل ہوا کیونکہ اس نے دو طوائفوں موراں اور گل بیگم سے شادی کی ۔موراں نے ایک مسجد بھی بنوائی اور جو مسجد مائی موراں کے نام سے مشہور ہوئی اور گل بیگم کے نام پر آج باغ گل بیگم کا علاقہ لاہور میں موجود ہے ۔رنجیت سنگھ کے دور میں پنجاب کے ڈوگرہ وزیر اعظم ہیرا سنگھ نے بازار حسن کو کاروبار کا مرکز بنانے کیلئے یہاں زرعی اجناس کی منڈی بھی بنا دی اور اس علاقے کو ’’ہیرا سنگھ دی منڈی‘‘ کہا جانےلگا۔اے حمید نے ’’لاہور لاہور اے‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک زمانے میں سرسید احمد خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیلئے چندہ جمع کرنے لاہور آئے تو شاہی محلے (ہیرا منڈی)میں بھی چلے گئے اور واپس آکر کہا کہ طوائفوں کے چندے سے اپنی یونیورسٹی میں غسل خانے بنواؤں گا۔مستنصر حسین تارڑ کی ’’لاہور آوارگی ‘‘ کے ایک باب کا نام ’’ہارٹ آف ہیرا منڈی ‘‘ہے جہاں تارڑ صاحب نور جہاں، فریدہ خانم، مہدی حسن، بڑے غلام علی خان اور کئی دیگر بڑے فنکاروں کو تلاش کرتے نظر آتے ہیں لیکن نیٹ فلیکس والی ہیرا منڈی ان کی کتاب میں نظر نہیں آتی ۔سچ یہ ہے کہ اصلی ہیرا منڈی شاہی قلعہ لاہور کے پہلو میں نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان کے بڑے شہروں کے ماڈرن علاقوں میں منتقل ہو چکی ہے ۔پرانی ہیرا منڈی میں طوائفیں زلف ورخسار بیچتی تھیں لیکن نئی ہیرا منڈیوں میں اہل سیاست و صحافت اپنا کردار بیچتے ہیں ۔ضمیر فروشی اور انصاف فروشی آگے نکل گئی جسم فروشی بہت پیچھے رہ گئی ۔آج ہمارا اہم ترین مسئلہ لاہور کی پرانی ہیرا منڈی نہیں بلکہ نئی ہیرا منڈیاں ہیں جہاں معززین شہر اپنےضمیر بیچ کر معتبر ٹھہرتے ہیں ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ