ساڑھے تین بھرپور ملاقاتیں : تحریر حفیظ اللہ نیازی


(گزشتہ سے پیوستہ)

میاں نواز شریف سے ملاقات ’’ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے‘‘ کی مد میں تھی۔حسین نواز نے جب یہ مژدہ سنایا کہ میاں صاحب نے شامی صاحب کے علاوہ مجھے بھی 28ویں روزہ کی افطاری پر مدعو کیا ہے تو شبہ نہیں تھا کہ مقصد ملاقات سیاسی حصار سے باہر نہیں ہو گا۔ کم وبیش اڑھائی گھنٹے کی ملاقات میں شامی صاحب کے علاوہ محترم سلمان غنی، عزیزم عمر شامی اور عزیزم عثمان شامی شریک، بلکہ بڑھ چڑھ کر موجود تھے۔21 اکتوبر سے نواز شریف نے وطن واپس قدم رنجا ضرور فرمایا، تب سے عام میل جول سے اجتناب اختیار کر رکھا تھا۔ الیکشن سے 3ہفتہ پہلے مسلم لیگ کے منشور پر پریس کانفرنس کے بعد آمنا سامنا فقط دعا سلام تک محدود رہا۔ بہرحال اس ظاہری بے تعلقی پر تشویش بھی اور تجسس بھی تھا۔ چنانچہ گفتگو کا آغاز انکی صحت، خیرو عافیت سے جُڑا تھا، تفصیل سے آگاہی اور تشفی پائی۔

دوسرا تجسس کہ 21اکتوبر کو بھرپور واپسی کے چند ہفتہ بعد عام انتخابات سر پر، انتخابی عمل میں عدم دلچسپی اُمڈ اُمڈ کر سامنے تھی۔ اپنے طور چشم تصور میں انکی باڈی لینگوئج کی تعبیریں تاویلیں گھڑیں۔ خصوصاً الیکشن سے 4 ہفتہ پہلے انتخابی مہم چلانے کی بجائے، پنجاب سے امیدواران کے انٹرویو شروع کر دیئے۔ میاں صاحب نے ایسے انٹرویو کا اڈا نہیں لگایا۔ مستزاد! جس سستی سے عمل کو طول دیا گیا، ہر حلقہ سے امیدوار کو الیکشن شیڈول کے آخری دو دنوں تک بمشکل ٹکٹ لیٹر جاری ہوا۔ مجھے میاں صاحب کی انتخابی گہما گہمی سے بظاہر لاتعلقی نے حیران کر دیا۔ اگرچہ مسلم لیگ ن کی عوامی رابطہ مہم اپریل 2018ء ہی سے تعطل بلکہ کسمپرسی کا شکار تھی، میاں صاحب ہمراہ مریم نواز فروری، مارچ، اپریل 2018 ءقریہ قریہ پہنچے، بھرپور مہم چلا ئی۔ تب سے آج تک مسلم لیگ ن نے جیسے عوامی سیاست کا بائیکاٹ کر رکھا ہو۔ کسی سیاسی جماعت کا 6 سال سے زیادہ عوام سے دور رہنا، میرے لئےایک معمہ تھا۔ جبکہ دوسری طرف عمران ایجنسیوں کی پُر زور خواہش پر 2014 ءکے دھرنے سے شروعات، 2016 سے آج تک بغیر توقف صرف اور صرف عوامی سیاست جاری رکھے ہوئے ہے۔ پچھلے دس سال میں میڈیا سائنسی بنیادوں پر استعمال میں، تب سے مین اسٹریم اور سوشل میڈیا چارسُو عمران کے قبضہ میں ہے۔ بلا شک و شبہ 8فروری کے الیکشن کی جامع تیاری صرف اور صرف عمران خان کی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ لڑائی کا مضبوط بیانیہ عمران کی سیاست کو درجنوں چاند لگا گیا، حالانکہ دراصل وہ اسٹیبلشمنٹ سے معاملہ مذاکرات کیلئے تڑپ ہے۔ دباؤ سے لیکر منت سماجت سب کچھ اسٹیبلشمنٹ سے معاملہ کرنے کیلئے زیر استعمال ہے۔

ان معروضی حالات نے نواز شریف کی سیاسی راہ عمل کو مسدود نہیں تو پیچیدہ ضرور بنا دیا ہے۔ نواز شریف 1990/93میں پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تو چھوٹتے ہی اسٹیبلشمنٹ کو کچھ حدود قیود کا پابند رکھنے کی کوشش کی۔ 1993ءمیں اقتدار سے علیحدہ ہوئے کہ ڈکٹیشن لینے سے انکاری تھے۔ تینوں ادوار میں اسٹیبلشمنٹ کو شتر بے مہار بننے سے روکا اور تینوں بار قیمت بھی ادا کی۔ مزید آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہ دینا بھی ایک بڑی وجہ نزاع رہا۔ نواز شریف نے 2007میں بینظیر، عمران خان سمیت سارے سیاستدانوں کو بٹھا کر اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں میثاق جمہوریت دیا کیونکہ نواز شریف ایک سیاسی رویے کا نام ہے۔ سیاست میں نواز شریف اور عمران خان دو متضاد رویوں کا نام ہے۔ میاں صاحب سے ملاقات میں موجود سیاسی تناظر میں مستقبل کی اسٹرٹیجی معلوم کرنا تھا۔ میاں صاحب غیر معمولی سامع اور کم گو ہیں۔ میرے جیسا بسیار گویک طرفہ مزے لوٹتا ہے۔ میں جس سے اخلاص رکھتا ہوں اُسی سے بھرپور گلہ یا اختلافی نوٹ بھی رکھتا ہوں۔ میاں صاحب کمالِ مروت سے میرا جارحانہ اندازِ تکلم برداشت کرتے ہیں۔آغاز گفتگو میں ہی میرا پہلا فقرہ! میاں صاحب آپکی سیاست بندگلی میں ہے، آپکے پاس نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟ خوشگوار حیرت! میاں صاحب کو سیاست پر طاری کیفیت کا نہ صرف بخوبی ادراک تھا، لائحہ عمل میں یکسوئی اور CLEARITY تھی۔ عمران خان بارے انکی نپی تلی رائے کہ وہ سیاست پر انتشار کو ترجیح دیکر خود کشی کا راستہ اختیار کر چُکا ہے۔ میاں صاحب کے نزدیک حالات کا جبر ’’آج ہمیں اداروں کو عمران خان کے منفی رویہ سے بچانا ہے‘‘۔ بقول میاں صاحب! پچھلے دو سال میں مسلم لیگ کی ایک تنی رسی پر چل کر پہلی ترجیح ریاست اور اداروں کو تہس نہس کرنیوالے عناصر سے بچانا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا تجاوز برداشت کرکے اپنے سیاسی بیانیہ کو بھینٹ چڑھانے کی بڑی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ میاں صاحب کے نزدیک پاکستان کو بچانے کیلئے یہ حکمت عملی ضروری ہے چاہے مقبول سیاست بھینٹ چڑھ جائے۔ میاں صاحب اس معاملے پر CONVINCE تھے کہ جھوٹ کی ملمع سازی اور چمک دمک سے متاثر رائے عامہ بالآخر اس چنگل سے نکل جائے گی۔ جھوٹ اور دھوکہ سے دیرپامثبت نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔

ریاست پاکستان کو عمران خان کے افراتفری ایجنڈا سے پاک کرنا ہو گا۔ اسٹیبلشمنٹ اور غیر مقبول سیاست کو مضبوط کرنا بحالت مجبوری ہے۔ ایک گونہ تسلی ہوئی کہ میاں صاحب لائحہ عمل کیلئے پُر عزم اور پُر اعتماد، اپنی دوررس سیاست بارے یکسو تھے۔ میاں صاحب اپنی مقبول سیاست خرچ ہوتے باریک بینی سے دیکھ رہے تھے، گھبرا نہیں رہے تھے۔ میاں صاحب کا ایک ایجنڈا ہے، جو پارٹی کے اندر زیر بحث ہے۔ مناسب نہیں کہ انکے عزائم کو کالم کا حصہ بناؤں۔ دلچسپ اتنا کہ میاں صاحب ’’انہی پابندیوں میں حاصل آزادی تو کر لے‘‘، آنیوالے ہفتوں میں اپنے پر عائد پابندیوں (DON’Ts ) کے اندر رہ کر جانفشانی سے اپنا راستہ بنا رہے ہیں۔ یقینا ’’ایسے راستے‘‘ کیلئے جو سیاسی تدبر اور تدبیر درکار، بدرجہ اتم موجود تھی۔ لگتا یہ ہے کہ میاں صاحب یکسوئی کیساتھ 5 سال بعد کی سیاست پلان کر چکے ہیں، مجھے یقین ہے کہ درست سمت میں ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ