تحریک انصاف ضمنی انتخابات ہار گئی : تحریر مزمل سہروردی


ملک بھر کے ضمنی انتخابات کے نتائج آگئے ہیں۔ یہ نتائج ملک کے آیندہ سیاسی منظر نامہ کے لیے ان گنت پیغام دے گئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات میں پنجاب میں تمام سیٹیں جیت لی ہیں۔ تحریک انصاف پنجاب میں ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی ہے۔

دوسری طرف کے پی میں باجوڑ کے قومی اسمبلی کے حلقہ میں تحریک انصاف کے ہی ایک کارکن نے تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر کوبڑے مارجن سے ہرا دیا ہے۔اس طرح کے پی میں تحریک انصاف باجوڑ کی سیٹ ہار گئی ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی جیت گئی ہے۔ لیکن ایک سوال اہم ہے کہ آصفہ بھٹو کے بلامقابلہ جیتنے کے بعد تحریک انصاف نے بہت پراپیگنڈا کیا تھا کہ ان کے امیدوار کو زبردستی بٹھا دیا گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو نے جو سیٹ چھوڑی اس پر تحریک انصاف نے امیدوار کیوں نہیں کھڑا کیا۔ کیا تحریک انصاف سے کوئی بھی اس سیٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ پراپیگنڈا جھوٹا تھا۔
سب سے پہلے پنجاب کی بات کر لیں۔ یہ درست ہے کہ ضمنی انتخابات میں پولنگ کی شرح عام انتخابات سے کم ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں اپوزیشن کے ضمنی انتخابات جیتنے کی ایک روایت موجود ہے۔ 2018میں عمران خان اور فواد چوھری اپنی ہی جیتی ہوئی نشستیں ضمنی انتخابات میں ہار گئے تھے۔

ڈسکہ میں بھی حکومت ہار گئی تھی۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حکومت کے ضمنی انتخابات جیتنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ بلکہ اب تو اپوزیشن کے ضمنی انتخابات جیتنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ کم از کم پنجاب کی حد تک تو ایسا ہی ہے۔ لیکن تحریک انصاف اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پنجاب سے تمام ضمنی انتخابات ہار گئی ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کی اس ہار کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کا مکمل ووٹر بیلٹ پر نہیں آیا۔ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ووٹر 8فروری کو تو بیلٹ پر آیا تھا لیکن ضمنی انتخابات میں ووٹر بیلٹ پر نہیں آیا۔ پھر سوال یہ ہے کہ ووٹر بیلٹ پر کیوں نہیں آیا۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ووٹر نا امید ہو گیا ہے۔

اس لیے نا امیدی کی وجہ سے وہ بیلٹ پر نہیں آیا۔کیا یہ ناامیدی اس لیے ہے کہ اس نے مان لیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو جتوا نہیں سکتا۔ اس لیے اس کا تحریک انصاف کو ووٹ دینے کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر یہ درست ہے تو پھر یہ ناامیدی کب تک قائم رہے گی۔ کیا اگلے پانچ سال میں یہ نا امیدی بڑھتی نہیں جائے گی۔ دن بدن تحریک انصاف کا ووٹر زیادہ نا امید نہیں ہوتا جائے گا۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہ مکمل طور پر یا تو بیلٹ سے دور ہو جائے گا یا وہ امید کی کوئی شکل ڈھونڈ لے گا۔

اگر دیکھا جائے تو یہ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ انھوں نے تحریک انصاف کے ووٹر کو بیلٹ سے دور کر دیا ہے۔ اگر پنجاب کی تاریخ دیکھی جائے تو اس سے پہلے پیپلز پارٹی کا ووٹر بھی پہلے مرحلے میں بیلٹ سے ہی دور ہوا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی یہی کہتی سنائی دیتی تھیں کہ میرا ووٹر بیلٹ پر نہیں آیا۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے ووٹر کو بھی یہ یقین ہو گیا تھا کہ اس کے بیلٹ پر جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

وہ پیپلزپارٹی کو جتوا نہیں سکتا۔ اس کے بعد اس ووٹر نے تحریک انصاف کو خوش امیدی میں جوائن کر لیا۔ اس لیے پہلے مرحلے میں ووٹر اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دینے سے انکار کرتا ہے دوسرے مرحلے میں نئی پارٹی جوائن کرتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ سیاست امید کا کھیل ہے۔ نا امیدی ووٹر کو آپ سے دور کر دیتی ہے۔ جماعت اسلامی کی مثال بھی سامنے ہے۔ نا امیدی نے پنجاب میں جماعت اسلامی کا ووٹ بینک بھی ختم کر دیا ہے۔

لوگ ہارنے والے کے ساتھ مسلسل نہیں کھڑے رہتے۔ اگر یہ بات ووٹرنے مان لی کہ تحریک انصاف نہیں جیت سکتی تو یقینا وہ تحریک انصاف کا متبادل ڈھونڈنے لگ جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں اسٹبلشمنٹ مسلسل تحریک انصاف کے ووٹر کو یہی سمجھانے کی کوشش میں تھی اور شاید ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے اسٹبلشمنٹ کو بھی یہ امید پیدا ہوئی ہو گی کہ ان کی حکمت عملی کام کر رہی ہے۔ یہ کوئی نئی حکمت عملی نہیں ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ یہ ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے ووٹ بینک کی حامل سیاسی جماعتوں نے اپنا ووٹ کھویا ہے۔ لوگ جیتنے کی امید میں ووٹ ڈالتے ہیں اگر ہار یقینی ہو تو ووٹ نہیں ڈالتے۔

ایک سوال اور اہم ہے، کیا تحریک انصاف کا ووٹر تحریک انصاف سے ناراض بھی ہے۔ کیا مزاحمت کی سیاست سے تحریک انصاف کا ووٹر تھک گیا ہے۔ اور اس نے تحریک انصاف کو پیغام دیا ہے کہ اب وہ مزید مزاحمت کی سیاست کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

کیا تحریک انصاف کے ووٹر نے تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کر دیا ہے۔ کیا 8 فروری کے بعد مرکز میں حکومت نہ بنانے کی پالیسی کو ووٹر نے پسند نہیں کیا ہے۔ اگر تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کی حمایت کر کے حکومت سازی میں شرکت کی ہوتی اور آج ن لیگ مرکز میں اپوزیشن میں ہوتی تو کیا نتائج مختلف ہوتے۔ یہ سب سوال ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے پیدا ہوئے ہیں۔

جو لوگ سمجھا رہے تھے کہ ن لیگ کی عوام میں مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے اس لیے ن لیگ کو حکومت نہیں بنانی چاہیے۔ وہ اب بتائیں کہ مقبولیت کم ہو رہی ہے یا زیادہ ہو رہی ہے۔ یہ ضمنی انتخابات کے نتائج حکومت بنانے کے فیصلہ کو کیا درست قرار نہیں دے رہے۔

دوست یہ بھی بتائیں کہ جب پنجاب میں پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک ختم ہونے کی بات کی جاتی ہے تو کیا ایک دلیل یہ نہیں دی جاتی کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں اقتدار ہی نہیں ملا۔ اس لیے ووٹ بینک ختم ہو گیا۔ تو کیا تحریک انصاف کی اقتدار سے دوری اس کا ووٹ بینک ختم نہیں کرے گی۔ وہی ووٹر ہے، وہی مزاج ہے۔

یہ ماننا ہوگا کہ تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں کمزوری کے آثار سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔یہ کتنے مستقل ہیں یہ دیکھنے کی بات ہے۔اگر نواز شریف کی دوری نے ن لیگ کو کمزور کیا ہے تو عمران خان کی دوری تحریک انصاف کو کمزور کیوں نہیںکرے گی۔

سندھ میں پیپلزپارٹی نے اپنا لوہا دوبارہ منوا لیا ہے۔ اب تو کوئی ان کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ کے پی میں مولانا نے بائیکاٹ کر کے تحریک انصاف کی سہولت کاری کی ہے۔انھیں یہ ضمنی انتخابات لڑنے چاہیے تھے۔ انتخابات سے فرار کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔

اس کا نقصان ہی ہوتا ہے۔بہر حال ان ضمنی انتخابات کے نتائج نے8فروری کے دھاندلی کے بیانیہ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ کیونکہ اس بار تو فارم 45 کا بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ ہارصاف اور شفاف ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس