کوئٹہ میں مولوی محمد عمر جان کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔ پولیس حکام

کوئٹہ +کابل(صباح نیوز)  بلوچستان کے پولیس حکام کا کہنا ہے کوئٹہ میں قتل کیے جانے والے مذہبی عالم مولوی محمد عمر جان کی ہلاکت کے محرکات کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ مولوی محمد عمر جان افغان طالبان کے اہم رہنما تھے۔تاہم ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس عبد الحئی بلوچ نے بتایا کہ تاحال کوئٹہ پولیس کے پاس مقتول کے افغان طالبان سے تعلق کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق مولوی محمد عمر جان طویل عرصے سے کوئٹہ میں ایک مسجد میں پیش امام تھے۔انھیں نامعلوم مسلح افراد نے جمعرات کی شب فائرنگ کر کے قتل  کیا تھا۔ تاحال کسی گروپ کی جانب سے ان کو قتل  کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔صدر پولیس سرکل کوئٹہ کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فون پر بی بی سی کو بتایا کہ مولوی عمر جان کو نامعلوم افراد نے کوئٹہ شہر کے نواحی علاقے نواں کلی کے علاقے میں نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ شب وہ مسجد سے گھر کی جانب جا رہے تھے کہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کی۔ واقعے کے بعد حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔انھوں نے بتایا کہ سینے میں گولیاں لگنے کے باعث مولوی عمر جان زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقتول کی باڈی کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کو سینے میں دو گولیاں لگی تھیں جو کہ ان کی موت کی وجہ بنیں۔نواں کلی کا شمار کوئٹہ کے گنجان آبادی والے علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ شہر مرکزی علاقے کے شمال میں واقع ہے۔ نواں کلی اگرچہ ایک طویل و عریض علاقے پر مشتمل ہے تاہم اس کا ابتدائی حصہ شہر کے مرکزی علاقے سے اندازا تین سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔نواں کلی میں مختلف زبانوں اور نسل سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں تاہم اس کی غالب اکثریت مختلف پشتون قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ اس علاقے میں افغان مہاجرین بھی آباد ہیں۔مولوی عمر جان طویل عرصے سے نواں کلی میں پیش امام تھے ۔صدر سرکل پولیس کے سینیئر اہلکار نے بتایا کہ مولوی عمر جان کی عمر پچپن سال سے زائد تھی۔ ان کا کہنا تھا وہ نواں کلی میں واقع ملیزئی مسجد میں طویل عرصے سے پیش امام تھے۔پولیس اہلکار کے مطابق مولوی عمر جان سے قبل ان کے والد اسی مسجد میں پیش امام تھے تاہم گذشتہ 10، 15 سال وہ خود اس مسجد میں امامت کی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ تھا اور نواں کلی میں وہ کسی کرائے کے گھر میں نہیں بلکہ اپنے ذاتی گھر میں رہائش پذیر تھے۔پولیس اہلکار نے بتایا کہ ان کی ہلاکت کے بارے میں مختلف پہلوں سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔پولیس اہلکار نے مولوی عمر جان کی افغان طالبان سے تعلق کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیقات مکمل ہونے سے قبل وہ اس حوالے سے کچھ نہیں بتا سکتے۔ تاحال کسی گروہ کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ماضی میں بھی افغان طالبان رہنماؤں کے قتل  کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ پولیس اہلکار کے مطابق تحقیقات مکمل ہونے پرمولوی عمر جان  کے قتل  کے محرکات کے بارے میں بتایا جاسکے گا تاہم اب تک کی شواہد کی بنیاد پر انھوں نے ان کی ٹارگٹڈ کلنگ کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔

دوسری طرف افغانستان سے طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مولوی عمر جان کو افغان طالبان کا اہم رہنما قرار دیا ہے۔ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے ایک پیغام میں انھوں نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں افغان طالبان رہنما کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ امارت اسلامیہ کا ملک کی علمی شخصیت محمد عمر جان اخوندزادہ کی ہلاکت پر شدید افسوس ہے۔ امارت اسلامیہ اس واقعے کو ملک کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیتی ہے اور ان کے اہل خانہ، رشتہ داروں سے تعزیت کا اظہار کرتی ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ‘اسلام دشمن عناصر کا یہ جرم جس کی زد میں علما آ رہے ہیں ، اس کی سخت مذمت کرتے ہیں اور اسے ایک سنگین جرم قرار دیتے ہیں۔تاہم جب ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ سے مولوی عمر جان کے افغان طالبان سے تعلق کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ تاحال کوئٹہ پولیس کے پاس ان کے افغان طالبان سے تعلق کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ کچھ تفتیش کے بعد ہی کوئٹہ پولیس اس بارے میں واضح رائے دینے کی پوزیشن میں ہوگی۔