جی پی او ضلع سبی میں کرپشن کے الزام پر نکالے گئے ملازمین کے حوالے سے فیڈرل سروسز ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنرل  پوسٹ آفس (جی پی او)ضلع سبی ، بلوچستان میں کرپشن کے الزام پر نکالے گئے ملازمین کے حوالہ سے فیڈرل سروسز ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے محکمے کی جانب سے انہیں نوکری سے برخاست کرنے کا فیصلہ بحال کردیا۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پبلک منی چوری ہوجائے اورمحکمہ نکالے بھی نا، دوسال بعد دوبارہ ملازمت پر رکھ لیں پھر تووہ اورشیر ہوجائیں گے۔ پبلک منی ہے، غریب لوگوں کے لاکھوں ، کروڑوں روپے چوری ہوجائیں، مدعا علیحان پر کرپشن، مس کنڈکٹ اور نااہلی کے الزامات ہیں۔جبکہ ایک اورکیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمدعلی مظہرنے ریمارکس دیئے کہ حکومت مختلف کیڈرز اور مختلف گروپ کے لوگوں کے حوالہ سے پالیسی بناسکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس محمدعلی مظہر کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اورجسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1میں مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے پوسٹماسٹر جنرل بلوچستان، کوئٹہ کی جانب سے امانت علی، محمداعظم اوردیگر کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان پیش ہوئے جبکہ مدعاعلیحان کی جانب سے ذوالفقاراحمد بھٹہ پیش ہوئے۔ جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ فیڈرل سروسز ٹربیونل کا اختیار ہے کہ نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ فیڈرل سروسز ٹربیونل نے صرف ایک لائن لکھ دی کہ محکمے کی جانب سے نوکری سے نکالنے کی سزاسخت سزاہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا پیمانہ ہے کہ نوکری سے نکالنے کی سزابہت سخت سزاہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ مس کنڈکٹ پر ملازمت سے فارغ کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان نے خود تسلیم کیا کہ کیش آرہا ہے جارہا ہے ہم نے اندراج نہیں کیا، ٹربیونل کے آرڈر کے مطابق مدعاعلیحان پرابلم کاحصہ ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے انکوائری ہمارا ایشونہیں، محکمے نے ریگولرانکوائری کے بعد ملازمت سے فارغ کیا۔ا یڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان کا کہنا تھا کہ مدعاعلیحان سبی جی پی اومیں تعینات تھے۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ کوتاہی ہوئی ہے تووہ بھی سنجیدہ معاملہ ہے، یہ بڑی اچھی بات ہے کہ غفلت ہوجائے اور غبن ہوجائے اورآپ کہیں کہ میں نے کیا ہی نہیں، اکائونٹنٹ بھی ساتھ ملا ہوا ہے، بہت سارے وائوچرز جعلی نکلے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سزاسخت ہے یا نہیں فیڈرل سروسز ٹربیونل کیسے اس نتیجہ پر پہنچا،اگر کوئی جرم نہیں کیا تو ٹربیونل کو توآپ کوبری کر کے نوکری پر دوبارہ بحال کرنا چاہیئے تھا۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ کسی چیز کی توسزادی ہے جس کو مدعاعلیحان نے چیلنج نہیں کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ انکوائری میں کہاں آیا ہے کہ مدعاعلیحان پر کوئی الزام نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے سوال ہے کہ کیا ٹربیونل سزاکم کرسکتا ہے کہ نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پبلک منی ہے، غریب لوگوں کے لاکھوں ، کروڑوں روپے چوری ہوجائیں، مدعا علیحان پر کرپشن، مس کنڈکٹ اور نااہلی کے الزامات ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھاکہ پبلک منی چوری ہوجائے اورمحکمہ نکالے بھی نا، دوسال بعد دوبارہ ملازمت پر رکھ لیں پھر تووہ اورشیر ہوجائیں گے۔

عدالت نے فیڈرل سروسز ٹربیونل کی جانب سے 21اور24مارچ 2016کو مدعا علیحان کے حق میں دیئے گئے فیصلے کالعدم قراردیتے ہوئے محکمے کی جانب سے ملازمت سے برخاست کرنے کا فیصلہ بحال کردیا۔ عدالت نے قراردیا کہ تفصیلی وجوبات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ عدالت نے پوسٹماسٹر جنرل بلوچستان، کوئٹہ کی جانب سے دائر اپیلیں سماعت کے لئے منظور کرلیں۔ جبکہ بینچ نے عبداللہ کی جانب سے سیکرٹری ہیلتھ اوردیگر کے توسط سے حکومت خیبر پختونخواکے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے مئوکل نے سارے تجربہ کے سرٹیفکیٹ امید کی کرن این جی اوکے جمع کروائے، سارے امید کی کرن پر ہی رہے، امید کی کرن سے نکل ہی نہیں رہے، این جی اوز میں کام کاتجربہ آسامی کے لئے شمار نہیں ہوگا۔ عدالت نے قراردیا کہ درخواست گزار مکینیکل ٹیکنیکل ٹیکنیشن، پتھالوجی(ملیریا)کے لئے اپلائی کیا۔ درخواست گزار کے 74.7نمبرز ہیں جبکہ جن امیدواروں کو ملازمت دی گئی ان کے 80اور77نمبرز ہیں۔ عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقراررکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔ بینچ نے نسیم خان، نورمحمد، سجاد حسین، عمررحمان، بلال احمد، عاقب نعمان، نویدہاشم، مس عائشہ ریاض اورمحمد امیر عالم کی جانب سے چیف سیکرٹری اوردیگر کے توسط سے حکومت خیبر پختونخوا کے خلاف سروس اورپروموشن کوٹہ کے حوالہ سے دائر 9درخواستوں پر سماعت کی۔

درخواست گزاروں کی جانب سے نورمحمد بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ حکومت مختلف کیڈرز اور مختلف گروپ کے لوگوں کے حوالہ سے پالیسی بناسکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک کا درخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو بھرتی ہوئے دوسال ہوئے اورترقی کے لئے اہل بھی نہیں توحکومتی پالیسی کو چیلنج کردیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا فیلڈ اسسٹنٹ ساری عمر فیلڈ اسسٹنٹ ہی رہے گا۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ درخواست گزار بیچارے مظلوموں کو روکنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے قراردیا کہ حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے فیلڈ اسسٹنٹس کے پروموشن میں 25فیصد مختص کرنے اور سائل کنزویشن آفیسرز کے لئے 75فیصد کوٹہ مختص کرنے کا اقدام درست ہے۔ درخواست کے پی سروسز ٹربیونل میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ درخواست گزار کے کوئی بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے جو کو پہلے ہی پروموشن میں 75فیصد کوٹہ دیا گیا ہے۔ عدالت نے درخواست گزاروں کی اپیلیں خارج کردیں۔ 
#/S