اسلام آباد: وزارت انسانی حقوق میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی زیر صدارت “کمشن برائے عملدرآمد جیل اصلاحات ” کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں سیکرٹری وزارت انسانی حقوق، ڈائریکٹر جنرل (ہیومن رائٹس)، جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ، آئی جی جیل خانہ جات خیبرپختونخوا اور پنجاب اور دیگر سینئر افسران کے ساتھ ساتھ صوبائی محکمہ داخلہ، وزارت قانون و انصاف اور وزارت این ایچ ایس آر اینڈ سی کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ . عمل درآمد کمیشن نے پاکستان بھر کی جیلوں میں شکایات کے ازالے کے طریقہ کار، مقررہ حد سے زیادہ قیدیوں کے رکھے جانے اور قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے علاؤہ جیل کے عملے میں حساسیت کی کمی جیسے مسائل کا جائزہ بھی لیا۔
میٹنگ کے آغاز میں ڈی جی ہیومن رائٹس نے جیل حکام کی جانب سے قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے الزامات، بدعنوانی اور جیل مینوئل کی خلاف ورزی پر مشتمل شکایات کے کیس پر شرکاء کو بریفنگ دی جو کہ ڈسٹرکٹ جیل بھکر کے ایک قیدی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا تھا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ جیل خانہ جات صوبائی محکموں کو پاکستان بھر کی جیلوں میں موجود قیدیوں کی شکایات کے ازالے کے طریقہ کار کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ قیدیوں کی تمام شکایات کا بروقت ازالہ ہو ۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جیلوں کی نگرانی کے طریقہ کار کو کسی بھی دباو سے آزاد خودمختار نظام وضع کرکے بہتر بنایا جا سکتا یے۔ جہاں سول سوسائٹی، سماجی بہبود کے اداروں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے نامور ممبران کو ان کمیٹیوں میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جیلوں میں بے ضابطگیوں کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے مواقع کو روکنے کے لئے ایک موثر نگرانی کا نظام ہی کافی ہو گا۔
عمل درآمد کمیشن نے بیرکوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھے جانے کے معاملے پر بھی بات کی۔ صوبائی نمائندگان نے وفاقی وزیر کو بتایا کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی بڑی وجہ زیر سماعت مقدموں کے قیدیوں کو بھی جیل میں منتقل کرنا ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات کے پی کےنے وزیر کو بتایا کہ خیبرپختونخوا میں اب پیرول دینا لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس سے مستقبل میں جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
ہر صوبائی رکن نے کمیشن کو حال ہی میں چاروں صوبوں میں جیل انتظامیہ کی طرف سے متعارف کرائی گئی جیل اصلاحات اور سہولیات سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر کچھ قیدیوں کو الگ کر دیا جاتا ہے اور انہیں قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے جبکہ اس مقصد کے لیے جیل کے خصوصی قوانین بھی موجود ہیں۔
وفاقی وزیر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مجرموں کے ساتھ امتیازی سلوک کا جواز پیش کرنے والے فرسودہ نظام میں ترمیم کی جانی چاہیے اور کہا کہ تمام مجرموں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔ کراچی میں ایک بااثر مجرم کے اسپتال میں قیام کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ جیل حکام کو تمام قیدیوں کے ساتھ غیر امتیازی سلوک روا رکھنا چاہیے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ پیکیج کی تعریف کی جو حال ہی میں پنجاب کی جیلوں میں متعارف کرایا گیا ہے اور مزید کہا کہ تمام صوبے قیدیوں کو کم کرنے کے لئے خیبر پختونخوا طرز کے ماڈل پر غور کر سکتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے روز دیا کہ جیل خانہ جات کے آئی جیز کو عملدرآمد کمیشن کے جائزے کے لیے وقتاً فوقتاً نگرانی کمیٹیوں کی رپورٹس پیش کرنی چاہیے اور جیل حکام کو مشورہ دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جیل کے عملے کے تبادلے اور تعیناتیاں میرٹ کی بنیاد پر ہوں۔
جیل کے عملے کی طرف سے قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک اور قیدیوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لیے وفاقی وزیر نے یقین دلایا کہ وزارت انسانی حقوق جیل کے عملے کے لیے حساسیت کے پروگرام ترتیب دینے کے لیے اپنا فورم اور ماہرین فراہم کر سکتی ہے۔ وہ جیلوں میں قیدیوں کے حقوق سے متعلق ضروری معلومات پر مشتمل کتابچے اور پمفلٹ اردو کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں میں فراہم کرنے کی بھی خواہاں ہیں۔
اپنے اختتامی کلمات میں انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں کو جیلوں میں غیر امتیازی سلوک کے لیے کے پی کے ماڈل کو اپنانا چاہیے۔