تاریخ میں کون جاوداں ہے؟ : تحریر نعیم قاسم


تاریخ گزرے ہوئے حالات و واقعات کو مربوط انداز میں بیان کرنے کا نام ہے تا ہم ایک سکالر کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تحقیق کے ماخذ مستند ہوں اور واقعاتی شہادتوں کے دستاویزی ریفرنس موجود ہوں ابن خلدون کا کہنا ہے کہ مؤرخ محض نقال نہ ہو وہ عصبیت سے پاک ہو اور حالات و واقعات بیان کرتے ہوئے اپنے ذاتی تعصبات کی بنا پر یہ کوشش نہ کرے کہ وہ ایسی تاریخ رقم کرے گا جس سے اس کی رائےکی تائید ہو اور دوسروں کے خیالات کی تردید ہو حال ہی میں میری نظر سے ڈاکٹر فاروق عادل کی پاکستان کی سیاسی تاریخ کے متعلق دو کتب نظر سے گزری ہیں دونوں کتابیں ریسرچ کے اصول و ضوابط کے مطابق لکھی گئی ہیں یا نہیں، اس پر تو کوئی رائے نہیں دونگا البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ ڈاکٹر صاحب نے صحافتی ادب میں ایک منفرد صنف کو متعارف کرایا ہے یعنی تاریخی واقعات اور کرداروں پر ادبی افسانوں کی طرز پر شارٹ سٹوریز لکھی ہیں جو پڑھنے والے کے دل و دماغ میں جاننے کا تجسس اور جستجو کو ممیز دیتی ہیں ڈاکٹر صاحب نے ون لائنز ٹائیٹل کے ساتھ اپنے زیادہ تر مضامین میں جتنے بھی اہم کرداروں کا ذکر کیا ہے انہیں خوبیوں خامیوں سمیت قارئین کی عدالت میں پیش کر دیا ہے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ وہ ان کرداروں پر عقیدت کے پھول نچھاور کریں یا لعن طعن کریں تاہم نواز شریف کو اس سلسلے میں کافی رعایت دیتے ہیں اور خامیوں سے مبرا تاریخ کا عہد ساز لیڈر قرار دیتے ہیں اور سیاسی فہم و فراست میں بھٹو سے بھی بڑھ کر قرار دیتے ہیں شاید اس کی وجہ نواز شریف کو پیمبرانہ معراج پر بٹھانے والے قصیدہ گو شخصیات سے ان کی ذاتی نیا ز مندی ہے نواز شریف کے دربار کے رتنوں پر تو اس نے شاہی خزانوں کے منہ کھول دئیے وہ تو نواز شریف کو ظل سبحانی مانتے ہوئے لکھیں گے کہ ع” دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں جبکہ ڈاکٹر صاحب نےتو کبھی شریفوں کے دستر خوان سے قلم کی عصمت فروشی کے بدلے لعل و زر نہیں سمیٹے اور نہ ہی نواز شریف کے مخالف سیاست دانوں، ججوں اور جرنیلوں کی ہجو گوئی کو اپنا شعار بنایا ہے تو پھر نواز شریف کے متعلق ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ناقدانہ جائزہ لیا جا سکتا ہے امید ہے کہ وہ برا نہیں مانیں گے ڈاکٹر فاروق عادل”جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے” میں بھٹو اور نواز شریف کا موازنہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں “بھٹو اپنے نظریات میں واضح طور پر جرآت مند اور بہادر تھے لیکن اپنی ذہانت کے باوجود نہ ملک کو آمریت سے بچانے میں کامیاب ہوئے اور نہ اپنی جان بچا سکے جبکہ اس کے برعکس نواز شریف کی عملی اپروچ، ورلڈ ویو اور حکمت عملی زیادہ با معنی رہی اور یہی طرز عمل انہیں بھٹو کے مقابلے میں نمایاں کرتا ہے نواز شریف کا مطالعہ بھٹو جیسا نہ تھا مگر وہ عالمی سیاست کے اسرار ورموز کو جس خوبی سے سمجھے وہ صرف نواز شریف کا ہی اعزاز ہے اور کسی دوسرے سیاستدان میں یہ خوبی دکھائی نہیں دیتی ہے ”
ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں بصد احترام عرض ہے کہ نواز شریف کا بھٹو سے موازنہ بنتا ہی نہیں ہے دونوں کا خاندانی پس منظر، تعلیم، وژن، سوچ و فکر میں زمین آسمان کا فرق ہے بھٹو صاحب ایک قوم پرست عالمی رہنما تھے جو تیسری دنیا، اسلامی بلاک، ایٹمی پروگرام اور سوشلسٹ خیالات کی وجہ سے مغربی سامراج سے ٹکرا گئے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جہاں تک بھٹو کے مقابلے میں نواز شریف کا مطالعہ کم ہے حضور انہوں نے آج تک اعلی کھانوں، برانڈ اور گاڑیوں کے علاوہ کبھی کچھ سوچا بھی نہیں اور شاہد ہی کبھی کسی موضوع پر کوئی کتاب پڑی ہو _بھٹو کی وجہ سے ملک میں مارشل لاء لگا کیونکہ ہماری فوج کو امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنا تھا جو بھٹو کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تھا دوسرا بھٹو پنجاب سے نہیں تھا اس نے کٹھے پٹھے پاکستان کی تعمیر نو کرنے کی کوشش کی ضیاء الحق اس کے عالمی قدو قامت اور سیاسی گلیمر سے خوفزدہ تھا اور اس کو دائیں بازو کی جماعتوں نے باور کرایا تھا کہ قبر ایک اور لاشیں دو ہیں جبکہ اس کے برعکس نواز شریف کو آئی جی آئی کے پلیٹ فارم سے اینٹی بھٹو ووٹ کو متحد کرنے کے لیے لانچ کیا گیا اور وہ پیپلز پارٹی کی دشمنی اور نفرت اور پنجابی کارڈ کھیل کر سیاسی محاذ آرائی کی وجہ لیڈر بنا اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے پر وہ وزیراعظم بن کر اپنے آقاؤں کے خلاف انقلابی بن کر کھڑا ضرور ہوا مگر صرف پنجاب کے لیڈر کے طور پر جبکہ بھٹو پورے پاکستان بلک پوری مسلم امہ کے اہم رہنما تھے نواز شریف کے سیاسی ایڈوینچرز کی وجہ سے مشرف کا مارشل لاء لگا اور آج تک ہابریڈ حکومتی بندوبست کی وجہ نواز شریف کی ناقص سیاسی حکمت عملی رہی ہے اپنی خوشی قسمتی، عرب حکمرانوں کے ساتھ تعلقات اور پرویز مشرف کی فراخ دلی سے نواز شریف کی جان بچ گئی تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا مگر بار بار اپنے ہی لگائے گئے آرمی چیفس کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے آگر اس کو فوجی جرنیل، اس کا بھائی اور آصف زرداری بار بار استعمال کر کے ٹشو پیپرز کی طرح پھینک دیتے ہیں تو میاں صاحب کیوں انقلابی بنتے بنتے بار بار فارم 47 پر منتخب ہو کر اقتدار میں آتے ہیں، مال و دولت سمیٹتے ہیں، راندہ درگاہ ہوتے ہیں تو دوبارہ سے انقلابی بننا شروع کر دیتے ہیں سیاسی زندگی میں جتنے مواقع نواز شریف کو ملے ہیں اور ایمپائرز کے ساتھ مل کر بار بار آؤٹ ہونے پر خود اور ان کے خاندان کو اقتدار ملا ہے ایسا دوسرا چانس بھٹو کو ملتا تو دنیا لینن کو بھول جاتی اور ملک میں عام عوام کو اپنے حقوق مل جاتے بھٹو صاحب پر ان کے بدترین دشمنوں نے بھی کبھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا جبکہ نواز شریف فیملی کے کاروبار کو چار چاند ہی ان کے وزیراعظم بننے کے بعد لگے بھٹو وزیر اعظم بن کر ذاتی ملاقات کے لیے ڈاکٹر قدیر کو بلاتے ہیں اور انہیں ایٹمی پروگرام کے لیے یوینیم افزودہ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور نواز شریف وزیر اعظم بن کر ڈائیو کے چیئرمین سے ذاتی ملاقات کرتے ہیں تاکہ معاملات طے ہونے پر کابینہ کمیٹی سے موٹر وے کی تعمیر پر ریٹ کی منظوری دی جا سکے بس یہی ترجیحات کا فرق بھٹو اور نواز شریف میں ہے ڈاکٹر صاحب کو کہنا ہے کہ نواز شریف نے جنرل باجوہ کی مارشل لاء دھمکی پر کہا کہ تم یہ کر کے بھی دیکھ لو حقائق کے منافی ہے شہباز شریف ان دنوں جنرل باجوہ کے ساتھ آن بورڈ تھے گاڑی کی ڈگی میں لیٹ کر آرمی ہاؤس میں ملاقاتوں میں تمام معاملات طے کر چکے تھے جنرل باجوہ کی دھمکی پر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ آپ یہ شوق پورا کر لیں ہم زمیندارہ کر لیں گے بھٹو، لیاقت علی خان، بے نظیر بھٹو اکبر بگتی پنجاب سے نہ تھے تو مارے گئے جونیجو مزاحمت نہ کر سکے آصف علی زرداری دس سال سے زائد عرصہ جیل میں رہے اس کے مقابلے میں نواز شریف جب ریڈ لائن کراس کر گئے تو انہیں تھوڑے بہت رگڑے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ سینے سے لگا لیا ہے اور عمران خان کا مینڈیٹ اس کی پارٹی کی جھولی میں ڈال دیا ہے تو اب ان کے لیے تاریخ کے اوراق میں عظمت کی بلندیوں پر فائز ہو نا نامکن ہے تاریخ کے اوراق میں سقراط سے لیکر بھٹو تک وہی زندہ و جاوید رہتے ہیں جو عوام کی بھلائی کے لیے استقامت کے ساتھ ظالم کے سامنے ڈٹے رہتے ہیں اور اپنے نظریات کے لیے جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں جان بچانا کوئی بہادری نہیں ہے شہادتوں کے دیپ جلانے سے ہی انسان امر ہوتا ہے وگرنہ مرنا تو سب نے ہی ہے بھٹو نے ضیاء الحق سے سودے بازی نہیں کی اور رحم کی بھیک نہیں مانگی نواز شریف نے یہ سودا ایک بار نہیں کیا بار بار کیا لہذا بھٹو کی قبر کو آج بھی ووٹ پڑ رہے ہیں زندہ نواز شریف کو موجو دہ الیکشن میں ووٹ پڑے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ بھی تاریخ کر دے گی چاہے مؤرخ کے ہاتھ کھلے ہوں یا بندھے ہوئے ڈاکٹر مبارک جیسی شخصیات حقیقی تاریخ لکھ ہی دیتے ہیں