جموں وکشمیر میں آرٹیکل370 کے خاتمے کے بعد پانچ سال سے کوئی حکومت نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو


سری نگر: مغربی نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نے کہا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام  جموں وکشمیر میں آرٹیکل370 کے خاتمے کے بعد پانچ سال سے کوئی حکومت نہیں ہے ، جموں و کشمیر میں بھارتی پارلیمان کی پانچ نشستوں کے انتخابات سے بی جے پی کشمیر میں بھی اپنا پرچم لہرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے،بھارت میں عام انتخابات سات مرحلوں میں ہوں گے، جس کے تحت آئندہ 19 اپریل کو پہلے مرحلے کی پولنگ ہو گی۔  بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں پارلیمان کی پانچ نشستیں ہیں، جن میں سے تین وادی کشمیر میں جبکہ دو جموں علاقے میں۔ سکیورٹی کی صورت حال کے سبب اس خطے میں پانچ مرحلوں میں پولنگ ہو گی۔پانچ اگست سن 2019 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا اور اس کا ریاستی درجہ ختم کرتے ہوئے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا تھا۔

اس اقدام کے بعد اس متنازعہ خطے میں پہلی بار پارلیمان کے انتخابات ہو رہے ہیں۔کشمیر میں گزشتہ پانچ برسوں سے کوئی حکومت نہیں ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے ہاتھ میں وہاں کا نظم و نسق ہے۔ بی جے پی کشمیر میں بھی اپنا پرچم لہرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور ان حالات میں لگ رہا تھا کہ بھارت نواز کشمیری جماعتیں متحد ہو کر مقابلے کے لیے ایک ساتھ میدان میں اتریں گی تاہم ایسا نہیں ہوا۔گزشتہ روز سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ عمر عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس سے اتحاد کا اب امکان نہیں ہے اور ان کی جماعت وادی کشمیر کی تمام سیٹوں سے انتخاب لڑنے پر مجبور ہے۔

ان کا کہنا تھا، ”وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم سب کے لیے ایک ساتھ ہونا بہت ضروری تھا۔۔۔ مجھے امید تھی کہ نیشنل کانفرنس، پارٹی کے مفاد سے بالاتر ہو کر کوئی فیصلہ کرے گی۔ تاہم عمر عبداللہ نے ہم سے مشورہ کیے بغیر میڈیا میں بیان دے دیا کہ پی ڈی پی کا اب کوئی وجود نہیں ہے۔”انہوں نے مزید کہا، ”محبوبہ مفتی چوتھے نمبر پر آگئی ہیں۔ یہ عمر کا سخت بیان تھا۔ اس کی وجہ سے میرے کارکنان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ میرے پاس کوئی چارہ ہی نہیں بچا، اس لیے ہمارے اپنے امیدوار الیکشن لڑیں گے۔ادھر عمر عبداللہ نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پی ڈی پی اور اس کی پسند کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا، ”میں نے محبوبہ کی پارٹی کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ مجھے اس پر کچھ کہنا بھی نہیں ہے۔ اگر وہ جموں و کشمیر کی سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہتی ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔ظاہر کہ دونوں اہم سیاسی جماعتوں میں سیٹ شیئرنگ کے حوالے سے کافی اختلافات ہیں اور اب اتحاد کافی مشکل نظر آتا ہے۔ البتہ جموں خطے میں دونوں جماعتوں نے کانگریس کے امیدواروں کی حمایت کی جانب اشارہ کیا ہے

اس دوران ریاست کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے کشمیری عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے نکلیں اور کم سے کم دفعہ 370 کے حوالے سے مرکزی حکومت کے اقدام کا جواب دیں۔ بدھ کے روز اپنی پارٹی کے کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے رہنما نے کہا، ”اس الیکشن میں، ہمیں صرف ایک سوال کا جواب دینا ہے: آیا پانچ اگست 2019 کو لیا گیا فیصلہ درست تھا یا غلط۔عمر عبداللہ کو آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد تقریبا سات ماہ تک حراست میں رہنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا، ”اگر آپ کو یہ فیصلہ درست لگتا ہے، تو نیشنل کانفرنس کو ووٹ نہ دیں۔ اگر اس فیصلے نے آپ کی زندگیوں کو بہتر بنا دیا ہے، تو ہمیں ووٹ نہ دیں۔مسٹر عبداللہ نے پارٹی کارکنان سے کہا کہ وہ صرف ووٹ کے ذریعے ہی پیغام دے سکتے ہیں، احتجاج کا سہارا لے کر یا امن و امان کی صورتحال کو بگاڑ کر نہیں۔عمر عبداللہ نے کہا کہ ”ہم نوجوانوں کو پتھرا کے لیے اکسانے اور امن میں خلل ڈالنے والے نہیں ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں، جنہوں نے امن برقرار رکھنے کے لیے جانیں قربان کی ہیں۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عام طور پر بہت کم لوگ ووٹ ڈالتے ہیں، اس لیے یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ اس بار کتنی تعداد میں لوگ ووٹ ڈالنے نکلتے ہیں۔