اسلام آبادکی قابل رہائش حیثیت برقرار رکھنے کیلئے خوشگوار ماحول کی ضرورت ہے: ماہرین

اسلام آباد(صباح نیوز)ماہرین کا کہناہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آفات کے خطرات کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت کی قابل رہائش شہر کی حیثیت بحال رکھنے کیلئے آب و ہوا کے لچکدار بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ ماہرین نے کہا کہ پاکستان میں آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور شہرکاری کی شرح کو مناسب میکانزم اور کوشش کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہاراسلام آباد میں اربن کلائمیٹ ریزیلینس بلڈنگ کے موضوع پرپالیسی ادارہ برائے پائیداترقی (ایس ڈی پی آئی) اور کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک ساوتھ ایشیا کے مشترکہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔سیمینار میں کینسا کے نمائندوں نے آن لائن شرکت کی۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کے ماحولیاتی ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل عرفان نیازی نے کہا کہ وفاقی ترقیاتی ادارہ اسلام آباد کے ماحول کو آلودگی سے بچانے کیلئے مختلف منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسلام آباد کو ماحولیاتی طور پر خوشگوار بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے شجرکاری مہم کے دوران چھوٹے پودے لگائے جاتے تھے جن کی اکثریت ضائع ہو جاتی تھی تاہم اب سی ڈی اے پہلے کے مقابلے میں تین گنا اور 6 فٹ سے زیادہ اونچے پودے لگا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دارالحکومت میں سرخ، نارنجی، نیلے اور سبز رنگ کے چار روٹس پر میٹرو بس سروس ہے جبکہ مزید تین روٹس شامل کیے جائیں گے۔ سی ڈی اے پانی کی قلت کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے آئی سی ٹی میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کے منصوبے بھی چلا ئے جا رہے ہیں۔پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (پاک ای پی اے) عاشق نواز نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت وفاق کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا ، لیکن یہ ایک کاروباری مرکز بن گیا ہے جس نے اپنی گنجائش سے زیادہ آبادی اور خدمات کا بوجھ ڈالا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی دارالحکومت کے قدرتی آبی ذخائر کچرے کے پھینکنے کے بعد آلودہ ہوگئے جس سے نالوں میں شہری سیلاب کا خطرہ پیدا ہوگیا

انہوں نے کہا کہ وفاقی دارلحکومت میںیومیہ 600 ٹن ٹھوس فضلہ ٹھکانے لگانے کیلئے مناسب لینڈفل سائیٹ نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ قبل ازیں ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقت منیر نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ایس ڈی پی آئی کا مقصد چھوٹے شہروں کو آب و ہوا کے سمارٹ انفراسٹرکچر کے ساتھ رہنے کے قابل بنانے کے لئے سفارشات پر کام کرنا ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں آب و ہوا سے متعلق شہری مراکز کی ترقی کے لئے ایک مضبوط بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے کیونکہ ہر آفت مقامی سطح یا ریاستوں کے نچلے درجے یعنی شہروں یا میونسپلٹیوں کو متاثر کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ میں ایسی تجاویز موجود ہیں جو وفاقی حکومت کو بھیجی گئی ہیں جنہیں مقامی حکومتوں کو منتقل کیا جانا چاہیے۔

ایس ڈی پی آئی کی ایسوسی ایٹ ریسرچ فیلو زینب نعیم نیپاکستان میں شہری آب و ہوا کی لچککے عنوان سے رپورٹ پر ایک مختصر پریزنٹیشن پیشکرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی آبادی کا 55 فیصد شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہے جبکہ جنوبی ایشیا کے خطے میں پاکستان میں سب سے زیادہ شہری آبادی کے رجحانات میں تیزی آئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور شہری ترقی کے درمیان گٹھ جوڑ پورے جنوبی ایشیا میں اہم اقتصادی شعبوں میں موجود ہے۔

موسمیاتی تبدیلی فضائی آلودگی اور شدید گرمی جیسے عوامل کی وجہ سے شہری علاقوں میں صحت کے موجودہ خطرات کو بڑھا سکتی ہے۔ تاہم جنوبی ایشیا کو بار بار آنے والے سیلاب کے خطرات کے پیش نظر 2030 تک سیلاب سے بچاو کے لئے سالانہ 215 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔علینہ کریم نے کہا کہ عوامی منصوبوں میں زیادہ شفافیت اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے متعلقہ حکام کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ موسمیاتی آفات سے بچنے کے لئے کاربن کے اخراج پر قابو پانے کے لئے اسلام آباد کے لئے خالص صفر اہداف کے ساتھ آئیں