بات سمجھ لیں کہ چیف جسٹس کے اختیارات تقسیم کردیئے گئے ،اب میںآل ان آل نہیں ہوں بلکہ تین رکنی کمیٹی آل ان آل ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ گزشتہ روز کی چیف جسٹس کے حوالہ سے غلط خبریں چل رہی تھیں، بتادوں، بڑے صحافی بن گئے ہیں، غلط خبریں ہیں ان کو میں شرمندہ نہیں کرنا چاہتا، اگرآپ پوچھنا چاہیں توہم بتابھی دیں گے کہ کیا غلط خبریں چل رہی تھیں۔جب ایف آئی اے صحافیوں کے خلاف پیکا ایکٹ 2016کے تحت کوئی چیز کرررہی ہے توپھر پیکاکی شرائط پوری کریں ، یہ تونہیں کہ اس میں ایک جنرل پروویژن ڈال دیں۔ ایک سنجیدہ جرائم ہیں جن کو قابل دست اندازی جرم کہتے ہیں اوردوسراناقابل دست اندازی جرائم ہیں جن میں گرفتاری نہیں ہوسکتی، قابل دست اندازی جرائم میں جو مرضی کریں، گرفتار کریں، ایف آئی آر کریں یا دفعہ 160کا نوٹس دیں۔ ،ہم چیزوں کو سمجھ کر کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کا دیرپااثر ہو۔ بات سمجھ لیں کہ چیف جسٹس کے اختیارات تقسیم کردیئے گئے یہ بات لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی اورمجھے روزانہ یہ بات بتانا پڑتی ہے،اب میں آل ان آل نہیں ہوں بلکہ تین رکنی کمیٹی آل ان آل ہے۔

جبکہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہائی کروائی ہے کہ جن صحافیوں کو سی آرپی سی کی دفعہ 160کے تحت ایف آئی اے نے نوٹس جاری کئے تھے ان میں سے کسی کو بھی گرفتارنہیں کیا جائے گا۔ جبکہ عدالت نے سید ابن حسین کے وکیل حیدر وحید کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی درخواست واپس لینے کے لئے تحریری درخواست دیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کی جانب سے صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے ایف آئی آرز کے اندراج اور انہیں نوٹسز دیئے جانے کے معاملہ پر 2021میں لئے گئے ازخودنوٹس، سید ابن حسین اورپریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ آف پاکستان کے صدر میاں عقیل افضل اوردیگر کی جانب سے دائر درخواستوںپر سماعت کی۔کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی گئی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل بیرسٹر منصو عثمان اعوان،ایس ایس پی انویسٹی یشن اسلام آباد مسعود احمد، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس، بیرسٹر سید صلاح الدین احمد،حیدر وحید ایڈووکیٹ اوردیگر حکام عدالتی نوٹس پرہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون برا نہیں اس کا اطلاق برا ہے، آئین کاآرٹیکل 14گھر کی پرائیویسی کا تحفظ کرتا ہے، کیا کوئی شخص کسی شخص کے واش روم میں بیٹھے کا فوٹو لے سکتا ہے، کیاآپ کے بچے کی پارک میں کھیلتے ہوئے کوئی تصوریر لے سکتا ہے۔ اس پرصحافیوں کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ نہیں لے سکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بیرسٹر صلاح الدین احمد پرائیویسی کے حوالہ سے تحریری دلائل جمع کرواسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا صلاح الدین احمد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ ایف آئی اے کوایجوکیٹ کرسکتے ہیں، ہوسکتا ہے انگریزی سمجھنے کا مسئلہ ہو۔ اس پر صلاح الدین احمد کاکہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کبھی، کبھی اوپرسے بہت دبائوہوتا ہے اور افسر کام نہیں کرنا چاہتا اورآپ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتااس لئے نوٹس دے دیتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ہم کہیں نوٹس دے ہی نہیں سکتے تو پھر توہم سیکشن 160کو ہی کالعدم قراردے رہے ہوں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نارمل لاء کے تحت کام کرے گی نہ کہ نیب قانون کے تحت۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا قانونی طریقہ سے آپ کو ڈیل کیسے کرے۔ دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس کا کہنا تھا کہ میں فوجداری کام کرتا ہوں، سی آرپی سی کی دفعہ 160انکوائری سے متعلق ہے، فوجداری شروع ہی اس وقت ہو گی جبکہ معاملہ تحقیقات میںجائے گا، انکوائری کے مرحلہ پر توکسی کو بھی بلایاجاسکتا ہے، جب تک معاملہ انویسٹی گیشن میں نہیں جاتاایف آئی اے کسی کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صلاح الدین کہہ رہے ہیں کہ ایسے ہی مجھے چائے پینے کے لئے مت بلائو۔ ملک جاوید اقبال کاکہنا تھا کہ دفعہ 160کے تحت کسی کو بھی بلایا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک سنجیدہ جرائم ہیں جن کو قابل دست اندازی جرم کہتے ہیں اوردوسراناقابل دست اندازی جرائم ہیں جن میں گرفتاری نہیں ہوسکتی، قابل دست اندازی جرائم میں جو مرضی کریں، گرفتار کریں، ایف آئی آر کریں یا دفعہ 160کا نوٹس دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ نہ کہیں کہ ایف آئی اے کا طریقہ کار مختلف ہے بلکہ یہ کہیں کہ قانون میں طریقہ کار مختلف ہے، ایف آئی اے کے قانون میں بتادیں کہ اس قانون کے تحت ہم کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج ہمارے سامنے سول وکیل فوجداری معاملہ میں پھنس گئے ہیں۔ چیف جسٹس کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سوری آپ ہمیں مناسب طریقہ سے گائیڈ نہیں کررہے، ایف آئی ائے وفاقی تحقیقاتی ادارہ ہے ان کے پاس مختلف قوانین کے تحت بہت سے اختیارات ہیں، 50،100قوانین ہیں، جب کسی خاص جرم کے حوالہ سے اختیارات استعمال کررہے ہیں توپھر جنرل پاور نہیں بلکہ مخصوص قانون استعمال کریں، جب پیکا کے تحت کوئی چیز کررہے ہیں توپھر پیکاکی شرائط پوری کریں گے، یہ تونہیں کہ اس میں ایک جنرل پروویژن ڈال دیں، دفعہ 160پلائی نہیں کررہی، اگرقابل دست اندازی جرم ہے توپھر جرم اورایف آئی آرنمبر بتائیں کہ اس میں آپ کو طلب کیا جارہاہے، ہم مخصوص لا کے ساتھ ڈیل کررہے ہیں، ایف آئی اے کے جنرل دائرہ اختیارکو استعمال نہ کریں۔ چیف جسٹس کا صلاح الدین احمد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ابھی آپ کی کوئی فوری پریشانی تونہیں۔ اس پر صلاح الدین احمد کاکہنا تھا کہ پریشانی ہے، انکوائریاں زیر التوا ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اٹارنی جنرل کا بیان لکھ دیتے ہیں کہ یہ آپ کو گرفتار نہیں کریں گے، ہم کیس کو چلائیں گے اور صلاح الدین احمد کی مرضی کی تاریخ بھی دے دیں گے، ہم چیزوں کو سمجھ کر کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کا دیرپااثر ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ خاتون صحافی کا کیس ہم کل (جمعرات)کے سپریم کورٹ کی تین رکنی کمیٹی کے اجلاس میں لگوالیں، یہ بات سمجھ لیں کہ چیف جسٹس کے اختیارات تقسیم کردیئے گئے یہ بات لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی اورمجھے روزانہ یہ بات بتانا پڑتی ہے،اب میںآل ان آل نہیں ہوں بلکہ تین رکنی کمیٹی آل ان آل ہے، ہوسکتا ہے میں خوش نہ ہوں لیکن یہ ملک کاقانون ہے۔ اس دوران پی ایف یوجی کی جانب سے شاہ خاور ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے شاہ خاورایڈووکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کامئوقف ایک ہی ہے یاالگ ہے، ہم آپ کو بھی سنیں گے ۔ صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ آئندہ منگل (2اپریل)کے روز سماعت رکھ لیں۔ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے بتایا کہ اس کیس کی سماعت کے بعد ابصار عالم کے کیس میں دوملزمان جو بیرون ملک ہیں ان کے ریڈ وارنٹس جاری کرنے کا پراسیس شروع ہوا ہے، وارنٹس حاصل کر لئے گئے ہیں، نادرا نے ان کے شناختی کارڈز بلاک کردیئے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں تحققیات ہوں اگر آپ تحقیقات نہیں کریں گے توہم مداخلت کریں گے اور آپ کسی پر مہربانی کررہے ہیں، تحقیقات کیسے کرنی ہیں یہ آپ کی صوابدید ہے ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ میں نے رپورٹ دیکھی تھی  ابصار عالم کے کیس میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے تاہم مطیع اللہ جان کے کیس میں آنکھوں کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا گزشتہ روز کی چیف جسٹس کے حوالہ سے غلط خبریں بتادوں، بڑے صحافی بن گئے ہیں، غلط خبریں ہیں ان کو میں شرمندہ نہیں کرنا چاہتا، اگرآپ پوچھنا چاہیں توہم بتابھی دیں گے کہ کیا غلط خبریں چل رہی تھیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شاہد میتلا کل کو کہے گاکہ آپ نے مجھے اچھا پھنسادیا میرے خلاف ایف آئی آر آگئی ہے، اب ہم کیا ان کوبلاکران کابیان ریکارڈ کریں گے، ہمیں قانون بتادیں جس کے تحت ہم شاہد میتلا کو عدالت بلائیں، شاہد میتلا صحافتی برادری کاحصہ ہیں تووہ کیوں پولیس کی مدد نہیں کرہے، ہم کوئی کمنٹس کر کے تھرڈ پارٹی کے رائٹس متاثر نہیں کرنا چاہتے۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت صحافی مطیع اللہ جان کو بات کرنے کی اجازت دینے سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ ہم مئوکل کو بات کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جب اس کی جانب سے وکیل پیش ہورہا ہو، یا توصلاح الدین اپنا وکالت نامہ واپس لے لی، کچھ توڈسپلن ہم رکھیں، اب تک ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ کس کے لئے کررہے ہیں، اگر اٹارنی جنرل کے ساتھ میٹنگ کرنا چاہتے ہیں توہم اس کا بھی کہہ دیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک طرف صحافیوں کے حقوق ہیں تو پھر شاہد میتلا بھی صحافی ہے اوراس کے حوالہ سے کہا جارہا ہے کہ اس کو پکڑ کر لے آئو، کل کو شاہد میتلا آجائے گاکہ میری صحافتی آزادی کو کیا ہوا، میں نے ایک پروگرام کیااورآپ نے مجھے بلالیا، ہم نے پھونک،پھونک کرقدم رکھنا ہے، آپ کو کوئی مسئلہ ہے آج ہم اُس کو حل کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سماعت کاحکم لکھواتے ہوئے کہا کہ صلاح الدین احمد کے دلائل جاری ہیں اور ہم کیس کی سماعت آئندہ منگل کے روز تک ملتوی کررہے ہیں۔کیس کی سماعت تقریباًاڑھائی گھنٹے جاری رہی۔