اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبہ سندھ میں واقع کنٹومنٹس بورڈز کی جانب سے ٹیکس وصولی کے معاملہ پرصوبہ سندھ کو قانون سازی کے لئے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کوہدایت کی ہے کہ وہ سندھ حکومت سے ہدایات لے کر عدالت کوآئندہ سماعت پر آگاہ کریں۔
عدالت نے قراردیا ہے کہ آئندہ سماعت تک کنٹونمنٹ بورڈز 1958 کے ایکٹ کے تحت ٹیکس وصول کرسکتے ہیں، اب تک اکٹھا کیا گیا ٹیکس واپس کرنے کے حوالہ سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم امتناع برقرار رہے گا۔جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی کوآج قانون سازی سے کوئی نہیں روک رہا، 1958کے ایکٹ کو 2024میں بحال کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔1979میں بریک آئی جو ہمارے لئے مسئلہ بن رہی ہے، 18ویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی قانون بناسکتی ہے،ناک کو گھمانا چاہتے ہیں توگھماتے رہیں، ہم آرڈر میں لکھ دیتے ہیں کہ سندھ اسمبلی قانون سازی کرے، انتظامی اورقانونی سطح پر سندھ حکومت آسانی سے مسئلہ حل کرسکتی ہے،کیوں ہمیں اتنے مشکل سوال میں ڈال رہے ہیں، یہ ہمارے لئے غیر ضروری مشق ہے۔
جبکہ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی کوفیصلہ کرنے دیں، صوبائی اسمبلی ترمیم کرے یہی سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے۔سپریم کورٹ میںصوبہ سندھ میں واقع کنٹونمنٹ بورڈز کی جانب سے وصول ٹیکس کی تقسیم کے معاملے پرجسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میںجسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔وفاق پاکستان کی جانب سے سیکرٹری وزارت دفاع، حکومت پاکستان راولپنڈی ، ایگزیکٹو آفیسر، فیصل کنٹونمنٹ بورڑ کراچی،ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمٹ بورڈ کلفٹن، ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ کورنگی کریک، کراچی، کنٹونمنٹ ایگزیکٹو آفیسر کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے مینیجنگ پارٹنر، کراچی اوردیگر کے توسط سے ایم ایس ملینیم مال مینجمنٹ کمپنی ، سبک مجید، اٹارنی کے زریعہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن پاکستان،کراچی،جلیل پیکیجنگ کے خلاف اس کے مینیجنگ پارٹنر، کراچی،مسمات بلقیس خالد، مسز شمع اسلم، گل ناز، رخسانہ ظفر، محمد زکریا،سامبا بینک لمیٹڈ کراچی،ایم ایس البراکا اپاریل، نیشنل بینک آف پاکستان ، کراچی،اسداللہ کھتری، یاسمین چیخ، مسز طاہرہ بی بی،محمد اشرف خان اوردیگر کے خلاف سالانہ کرائے کی مالیت کے حساب سے ٹیکس کے مطالبہ، حکم امتناع جاری کرنے اور فریق بننے کی اجازت دینے کے حوال سے 134درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصور عثمان اعوان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبرایڈووکیٹ عدالتی نوٹس پر پیش ہوئے۔ جبکہ فریقین کی جانب سے ایان مصطفی میمن، خواجہ شمس الاسلام ،اصغر علی اوردیگر بطوروکیل پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تا کہ مدعا علیہ ایم ایس ملینیم مال کی جانب سے التوا کی درخواست آئی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیئے کہ1958 کے پراپرٹی ٹیکس قانون پر 1979 میں ایک صدارتی آرڈر جاری ہوا، آٹھویں ترمیم کے ذریعے 1985 میں ضیاالحق نے اس صدراتی آرڈرکو آئینی تحفظ دیا۔اٹارنی جنرل نے مئوقف اپنایا کہ 2010 میں18ویں ترمیم میں بھی اس معاملے میں چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی، کینٹ بورڈز کا ٹیکس وصول کرنا صوبائی نہیں وفاقی معاملہ ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق اکٹھے کیئے گئے ٹیکس میں 15فیصد حصہ سندھ حکومت کوجائے گااورباقی 85فیصد حصہ کنٹونمٹس کے پاس رہے گا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ اس کو صوبائی یاوفاقی قانون کہیںگے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ وفاقی قانون ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ جب صدارتی آرڈینس آیا تواس وقت شہری علاقہ میں پراپرٹی ٹیکس لگانے کا اختیارکس کے پاس تھا، فیڈرل لاء کیسے بن گیا تھا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا اس وقت نہیں دیکھتے تھے کہ صدر ہر چیز کے بار ے میں صدارتی آرڈر جاری کرسکتا تھا کہ انہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ اس وقت آئین معطل تھا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی کوآج قانون سازی سے کوئی نہیں روک رہا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہان تھا کہ سندھ اسمبلی کوفیصلہ کرنے دیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر ہم روکتے ہیںتوپھر 1958کاقانون چلنے دیں، نوٹس کرنا ہے کیا کرنا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ حکومت کیا کہتی ہے، آپ نے ابھی تک قانون کیوںنہیں بنایا، 8ویں ترمیم میں اورپھر18ویں ترمیم میں بھی پروٹیکشن چل رہی ہے،اگر کل کوایکٹ بنادیں تو معاملہ ختم ہوجائے گا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ 1958کے ایکٹ کو 2024میں بحال کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت قانون سازی کرکے اس قانون کو صوبائی معاملہ کیوں نہیں بنا لیتی؟ آپ نے1958کے قانون میں صرف ایک لائن کا اضافہ کرنا ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی کاکہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی ترمیم کرے یہی سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے ایک لائن لکھنی ہے کہ 1958کا ایکٹ ہم نے 2024میں بحال کردیا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ ہدایات لیں گے، 1979میں بریک آئی جو ہمارے لئے مسئلہ بن رہی ہے، 18ویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی قانون بناسکتی ہے،ناک کو گھمانا چاہتے ہیں توگھماتے رہیں، ہم آرڈر میں لکھ دیتے ہیں کہ سندھ اسمبلی قانون سازی کرے، انتظامی اورقانونی سطح پر سندھ حکومت آسانی سے مسئلہ حل کرسکتی ہے،کیوں ہمیں اتنے مشکل سوال میں ڈال رہے ہیں،مدعا علیحان جواب دے دیں اور ایڈووکیٹ جنرل ہدایات لے لیں، بینچ کاسابقہ آرڈر برقرارہے گا۔
اس موقع پراٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ یہ کوئی ٹیکس ادانہیں کررہے نہ سندھ حکومت کواورنہ ہی وفاقی حکومت کو۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس تودینا ہے، 1958کے ایکٹ کے نیچے ٹیکس دینا شروع کردیں۔ مدعا علیحان کے وکیل بیرسٹر ایان مصطفی میمن کا کہنا تھاکہ 50ہزارٹیکس ہے، یہ 5لاکھ روپے لے رہے ہیں، 1988 میں بے نظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آرٹیکل 270 کے تحت جن شقوں کو تحفظ دیا گیا ان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔مدعاعلیحان کے ایک اوروکیل کا دلائل میں کہنا تھا کہ کلفٹن کنٹونمٹ میں 99فیصد سویلین رہتے ہیں۔ سماعت کاحکم لکھواتے ہوئے جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ 1958کے ایکٹ کے تحت کنٹونمٹس ٹیکس وصول کریں گے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا سابقہ ریلیف برقراررہے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ 270-A(3)کے حوالہ سے جواب دیں گے۔ بعد ازاں عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی۔