مشہد میں دو دن : تحریر جاوید چوہدری


ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں یہ سکردو کے رہنے والے ہیں ان کے والد 32 سال قبل تعلیم کے لیے قم آئے حسین باقری کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی یہ بھی والد کے ساتھ ایران آ گیا مدرسے اور اسکول دونوں سے تعلیم حاصل کی آخر میں دینی تعلیم کے بجائے دنیاوی تعلیم کی طرف آ گیا ایم بی اے کیا ایران میں شادی کی اور سر تا پا ایرانی ہو گیا۔

ایرانیوں سے بہتر فارسی بولتا ہے اور اٹھنے بیٹھنے میں اس قدر ایرانی ہے کہ لوکل اسے غیر ایرانی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اس نے مختلف ملازمتیں کیں اور آخر میں زعفران کا کاروبار شروع کر دیا کاروبار چل پڑا تو اس نے اقبال فورم کے نام سے تہران میں فکری اور سفارتی فورم بنا لیا اس فورم کا مقصد پاکستان اور ایران کو نزدیک لانا ہے یہ پچھلے سال میرا انٹرویو کرنے پاکستان آیا اور اس سے دوستی ہو گئی۔

دوستی کی کئی وجوہات ہیں پہلی وجہ اس کی لرننگ کی عادت ہے یہ نئی سے نئی چیزیں اور عادتیں سیکھتا رہتا ہے دوسرا یہ صاف ستھرا شخص ہے لباس اور نشست و برخاست میں بھی مہذب ہے اور یہ وہ وٹامن ہے جو عموما پاکستانیوں میں نہیں ہوتا اور تیسری وجہ یہ معلومات کا خزانہ ہے مدرسے اور نارمل تعلیم کی وجہ سے تاریخ اور معاشرت دونوں کا پروفیسر ہے چناں چہ اس کے ساتھ دوستی ہو گئی اور میں اس کی دعوت پر 7 مارچ کو ایران پہنچ گیا۔

ہم نے اپنے سفر کا آغاز مشہد سے کیا مشہد کا لفظی مطلب شہادت گاہ یا شہید کا مقام ہوتا ہییہ شہر اہل تشیع کے آٹھویں امام حضرت رضا کی مناسبت سے پوری دنیا میں مشہور ہے امام یہاں کیسے پہنچے اور کیسے شہید ہوئے یہ طویل اور درد ناک داستان ہے خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں یہ علاقہ خراسان کا حصہ ہوتا تھا اس دور میں افغانستان اور پاکستان کے علاقے بھی خراسان میں شامل ہوتے تھے۔

خلیفہ نے ایک رات خواب میں دیکھا دو ہاتھ اس کی طرف سرخ رنگ کی مٹی بڑھا رہے ہیں اور اس مٹی سے خاص قسم کی خوشبو آ رہی ہے اسے ہاتھ جانے پہچانے محسوس ہوئے لیکن وہ انھیں شناخت نہ کر سکا 809 میں خراسان میں بغاوت ہوئی اور وہ اس کی سرکوبی کے لیے بغداد سے یہاں آگیا طوس شہر میں ایک شام اسے اپنا وہ خواب یاد آیا اور اس نے اپنے غلام کو حکم دیا جاکر صحن کی مٹی لے کر آؤ غلام گیا زمین سے مٹی لی اور دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر بادشاہ کے حضور پیش کر دی وہ ہاتھ وہ مٹی اور وہ خوشبو تینوں اس کے خواب کے منظر تھے اسے یاد آ گیا اس نے خواب میں جو ہاتھ دیکھے تھے وہ اس غلام کے تھے بادشاہ نے ہاتھ پہچان کر پیش گوئی کی میری موت کا وقت ہو گیا ہے اور میں اسی زمین میں دفن ہوں گا یہ بات سچ ثابت ہوئی۔

ہارون الرشید 17 دن بعد 24 مارچ 809 کو طوس میں فوت ہو گیا اور اس کی وصیت کے مطابق اسے طوس کے مضافات میں سن آباد کے گاؤں میں دفن کر دیا گیا اور اس کی قبر پر ایک شان دار مقبرہ بنا دیا گیا ہارون الرشید کے بعد اس کا بیٹا مامون الرشید بادشاہ بن گیا مامون ہارون الرشید کی ایرانی بیگم کے بطن سے تھا جب کہ اس کا دوسرا بیٹا امین الرشید عربی بیگم زبیدہ کی اولاد تھا دونوں شہزادوں کے درمیان اقتدار کے لیے رسہ کشی ہوئی آخر میں مامون جیت گیا امام رضا اس وقت مدینہ منورہ میں رہائش پذیر تھے اور پوری اسلامی دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

مامون الرشید کو محسوس ہوا اس کے عربی معززین کہیں ان کے ساتھ مل کر بغاوت نہ کر دیں لہذا مامون نے امام کو طوس بلا لیا امام نے ایلچی سے پوچھا کیا میرے پاس کوئی دوسرا راستہ ہے؟ آپ کو بتایا گیا جی نہیںآپ نے ہر صورت طوس پہنچنا ہے امام زنان خانے میں گئے اپنی ہمشیرہ سیدہ معصومہ سے ملاقات کی اور فرمایا آپ مجھے آخری بار مل لیں مجھے خدشہ ہے میں خراسان سے زندہ واپس نہیں آ سکوں گا دونوں بہن بھائی دیر تک ایک دوسرے سے مل کر روتے رہے اور اس کے بعد امام طوس تشریف لے آئے مامون الرشید ان کا بہت احترام کرتا تھا وہ ہر وقت انھیں اپنے ساتھ رکھتا تھا اس نے انھیں ولی عہد بھی نامزد کر دیا مگر یہ سب دکھاوا تھا وہ اندر سے امام کی مقبولیت سے خائف تھا اس نے امام کے نام سے سکہ بھی جاری کیا تھا جسے اہل تشیع سفر پروانہ ہونے سے قبل بازو پر باندھ لیتے تھے اور منزل پر پہنچنے کے بعد وہ سکہ بازو سے کھول کر خیرات کر دیتے تھے۔

یہ عمل امام ضامن کہلاتا تھا اور یہ آج تک جاری اور ساری ہے بہرحال چھ جون 818 کو امام کو انگوروں میں زہر دے کر شہید کر دیا گیا اہل تشیع مامون الرشید کو امام کے قتل کا ذمے دار قرار دیتے تھے بہرحال قصہ مزید مختصر مامون الرشید نے امام کو اپنے والد ہارون الرشید کے مقبرے میں دفن کر دیا اس کا خیال تھا امام کی وجہ سے والد کے درجات بھی بلند ہوں گے اور زائرین تاقیامت دعا بھی کرتے رہیں گے لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس اہل تشیع امام کے روضے پر آتے تھے گریہ وزاری کرتے تھے اور واپس جاتے ہوئے ہارون الرشید پر تبری کرتے تھے اور اس کی قبر کو نفرت سے ٹھوکریں مارتے تھے ان ٹھوکروں کی وجہ سے ہارون الرشید کی قبر معدوم ہو گئی اور روضے میں صرف امام کا روضہ بچ گیا آج بھی اگر دیکھا جائے تو امام کا روضہ مرکزی گنبد سے ذرا سا ہٹ کر ہے اس کی وجہ ظاہر ہے ہارون الرشید کی قبر تھی خلیفہ کی قبر گنبد کے عین نیچے تھی جب کہ امام کو گنبد سے ذرا سے فاصلے پر دفن کیا گیا تھا لہذا عمارت کا یہ ٹیڑھا پن آج تک قائم ہے۔

امام کی برکت سے سن آباد کا گاؤں مشہد بن گیا اور یہ آج ایران کا آبادی اور وسائل کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر ہے اس کی آبادی 34لاکھ ہے جب کہ ہر سال اڑھائی کروڑ زائرین زیارت کے لیے یہاں آتے ہیں مقبرے کی حفاظت اور تزئین وآرائش کے لیے امام رضا فاؤنڈیشن بنائی گئی جو اس وقت اسلامی دنیا کی تیسری بڑی بزنس ایمپائر ہے سالانہ اربوں ڈالرز کا کاروبار کرتی ہے اس کی بڑی بڑی کنسٹرکشن کمپنیاں ہیں جو سرکارسے ٹھیکے لیتی ہیں فاؤنڈیشن کے ریزروز ملک کے کل اثاثوں سے زیادہ ہیں چناں چہ یہ اسٹیٹ کے اندر ایک بڑی اور مضبوط اسٹیٹ ہے اور اسٹیٹ بھی بعض اوقات اس سے قرض لینے پر مجبور ہو جاتی ہے اس کے دو لاکھ سے زیادہ ملازمین ہیں۔

فاؤنڈیشن منافع سے مزار کی تزئین وآرائش بھی کرتی ہے اور زائرین کی خدمت بھی یہ روزانہ دو لاکھ کھانے بھی دیتی ہے اور یہ کھانے فائیو اسٹار ہوٹل سے زیادہ معیاری ہوتے ہیں اور یہ باقاعدہ ڈائننگ ہالز میں باوردی بیرے سرو کرتے ہیں زائرین یہ کھانا گھر بھی لے جا سکتے ہیں طوس مشہد سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اس میں خلیفہ ہارون الرشید کا پرانا محل ہے جسے ہارونیہ کہا جاتا ہے جب کہ عربی زبان کا عظیم شاعر اور شاہ نامہ کا خالق فردوسی اور امام الغزالی بھی اسی شہر میں مدفون ہیں اور وہ نادر شاہ جس نے ہندوستان پر حملہ کر کے محمد شاہ رنگیلا سے تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا ہتھیا لیا تھا اس کا مزار بھی مشہد میں امام کے روضے سے ذرا سے فاصلے پر واقع ہے۔

میں جمعرات 7 مارچ کی دوپہر مشہد پہنچ گیا میں اور حسین باقری مشہد کی مرکزی شاہراہ امام رضا بلیو وارڈ پر درویشی ہوٹل میں ٹھہرے یہ فائیو اسٹار ہوٹل ہے اس کا مالک سونے کا کام کرتا تھا آخر میں اس نے 18منزلہ ہوٹل بنا لیا 17 منزلیں ہوٹل کے لیے وقف کر دیں جب کہ 18 ویں منزل پر خاندان سمیت شفٹ ہو گیا روضہ مبارک ہوٹل سے واکنگ ڈسٹینس پر تھا اس شاہراہ پر ایک ہزار ہوٹل ہیں اور ان میں سے ننانوے فیصد امام رضا فاؤنڈیشن کی ملکیت ہیں مشہد میں جس بھی پراپرٹی یا کاروبار پر رضوی لکھا ہو اس کا مطلب ہوتا ہے یہ بزنس یا پراپرٹی امام رضا کی ملکیت ہے مجھے ایران کی سب سے بڑی بسکٹ فیکٹری نان رضوی جانے کا اتفاق ہوا یہ بھی فاؤنڈیشن کی ملکیت ہے اور یہ اکیلی اربوں روپے کا کاروبار کرتی ہے۔

ہم پاکستانی اس ماڈل سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ہم بھی داتا صاحب امام بری اور فریدالدین گنج شکرکے نام سے کمپنیاں بنا سکتے ہیں یہ کمپنیاں کاروبار کریں ان سے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور دربار بھی چندے جیسی بے عزتی سے بچ جائیں گے ہمارے اولیا کرام اللہ کی برگزیدہ ہستیاں ہیں اللہ تعالی ان کی کمپنیوں میں برکت ڈالے گا اور یوں ملک میں معاشی انقلاب آ جائے گا امام رضا فاؤنڈیشن ہمارے لیے ماڈل بن سکتی ہے فاؤنڈیشن نے ہر قسم کے مسافر خانے ہوٹل اور ریستوران بھی بنا رکھے ہیں ان کا معیار مثالی ہے میٹروز اور دوسری ٹرانسپورٹ کمپنیاں بھی فاؤنڈیشن چلا رہی ہے اور ان کی سروسز اور معیار بھی بہت اعلی ہیں۔

ہم نے پہلا دن طوس میں گزارہ ہم سب سے پہلے فردوسی کے مزار پر گئے فردوسی 940 میں پیدا ہوا تھا وہ ایک رئیس زادے کے باغ میں ملازم تھا سارا دن مزدوری کرتا تھا اور رات کو شاہ نامہ تخلیق کرتا تھا اس نے 30 سال لگا کر شاہ نامہ مکمل کیا یہ دنیا کی ایک شان دار رزمیہ داستان ہے رستم اور سہراب اسی شاہ نامہ کے کردار ہیں فردوسی فارسی زبان کا بابا آدم بھی تھا اس نے شاہ نامہ لکھ کر فارسی کو ادب کی زبان بنا دیا اس کے شعر زبانوں اور دلوں سے ہوتے ہوئے پورے سینٹرل ایشیا میں مشہور ہو گئے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس