خطے میں قیام امن کے لیے عالمی برادری مداخلت کرکے مسئلہ کشمیر حل کرائے، تنویر الاسلام

مظفرآباد (صباح نیوز) جموں و کشمیر پیس اینڈ جسٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام “معاہدہ امرتسر سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ تک: سفر آزادی و امن” کے عنوان پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مختلف سکالرز ، نوجوان رہنماوں اور سول سوسائٹی نمائندگان نے عالمی برادری اور دنیا کے بااثر اور امن پسند ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ دو صدیوں پر محیط کشمیریوں کے مصائب اور ان پر مسلط ظلم کے نظام کو ختم کرانے کے لئے اور کشمیریوں کو ان کا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حق، حق خودارادیت دلانے کے لیے اپنا انسانی کردار ادا کریں۔ 16 مارچ 1846 کے رسوائے زمانہ معاہدہ امرتسر اور اس معاہدے کے کشمیریوں کی سیاسی، سماجی، اور معاشی زندگی پر اثرات اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری حق خودارادیت کی تحریک کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرنے کی غرض سے ہونے والے اس سمینار کی افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز کشمیری رہنما اور پیس اینڈ جسٹس آرگنائزیشن کے سربراہ تنویر الاسلام نے کہا کہ کشمیر کی حق خودارادیت کی جدو جہد کے بیانیہ کی تشکیل کے لئے انیسویں صدی کے وسط میں نوآبادیاتی طاقتوں اور علاقائی حکمرانوں کے درمیان معاہدہ امرتسر اور اس کے کشمیریوں کی زندگیوں پر اثرات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر کے بعد آمرانہ ڈوگرہ حکمرانی کے جس نظام کو متعارف کرایا گیا اس کے نتیجے میں کشمیریوں کی غلامی، استحصال اور پسماندگی کا ایک ایسا دور شروع ہوا جس کا تسلسل اس وقت بھی جاری ہے۔ تنویر الاسلام نے کشمیری سکالرز، محقیقین اور سماجی سائنسدانوں پر زور دیا کہ وہ معائدہ امرتسر کا ضرور مطالعہ کریں کیونکہ اس معاہدے کے بعد جہاں کشمیر ایک متحدہ ریاست کی شکل میں معرض وجود میں آئی وہاں ایک ایسا نظام بھی متعارف کرایا گیا جس کے تحت کشمیری ایک مطلق العنان حکمران کی رعایا بن کر رہ گئے۔ سیمینار کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز اسکالر پروفیسر شاہد حسین، پروفیسر ساجد حسین، سنئیر صحافی خضر حیات عباسی، محمد یسین خان اور دیگر مقررین نے کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں سے لیکر بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35- اے کے خاتمے تک روا رکھے جانے والے مظالم پر روشنی ڈالی اور ان مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

پروفیسر شاہد حسین نے صدیوں پر محیط کشمیریوں کی غلامی کے مختلف ادوار کو نہایت بلیغ انداز میں بیان کرتے ہوئے 1924 میں سرینگر کے ریشم خانے کے کارکنوں کے قتل عام اور 1931 میں سرینگر سنٹرل جیل کے باہر کشمیریوں کے بہیمانہ قتل جیسے دلخراش واقعات پر روشنی ڈالی۔ اپنے اختتامی کلمات میں جموں و کشمیر پیس اینڈ جسٹس آرگنائزیشن کے سربراہ اور تقریب کے میزبان تنویر الاسلام نے 1947 میں تقسیم ہند کے بعد کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے عالمی برادری بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور خلیجی ممالک سعودی عرب، عرب امارات، کویت اور قطر سے اپیل کی کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے کشمیریوں کے حقوق اور ان کے حق خودارادیت کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں ۔