پچھلا کالم جس روز اخبار میں نمودار ہوا، مارچ کی 12 تاریخ تھی۔ یہ تاریخ ہمارے دل پہ اس طرح نقش ہے جیسے کلے (Calais) کا نقشہ الزبتھ اول کے دل پہ مرتسم تھا۔ 12 مارچ 1949 کو لیاقت علی مرحوم نے دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد منظور کروائی تھی۔ قابل احترام حامد خان سے گواہی لے لیجئے، کل ملا کے 31ارکان اسمبلی موجود تھے۔ 21 مسلم اور 10غیر مسلم۔ تمام مسلم ارکان نے قرارداد کی تائید کی اور سب غیر مسلم ارکان نے اختلاف کیا۔ یہ ہماری قومی تشکیل میں ایک فیصلہ ساز لمحہ تھا۔ پاکستان میں شہریت عقیدے کی سطح پر اتر آئی تھی۔ ہندوستان میں یہ عذاب نریندر مودی کی صورت میں کوئی ساٹھ برس بعد نمودار ہوا۔ ہم نے یہ آزمائش دیکھ رکھی ہے ایک قصہ سناتا ہوں۔ لاہور میں جیل روڈ سے مال روڈ کی طرف گریز کرتی سڑک پر نجی یونیورسٹی کا ظفر علی کیمپس تھا۔ ڈاکٹر مہدی حسن ہمارے استاد تھے۔ ہماری روایت میں استاد کو منصب سے منسوب نہیں کیا جاتا۔ آئی اے رحمن ہمارے ایڈیٹر نہیں، استاد تھے۔ مہدی حسن ڈین نہیں، استاد تھے۔ فلسفہ کے استاد شاہد حسین کے صاحبزادے آصف زیدی مرحوم میرے ہم عصر اور مہدی حسن کے بھانجے تھے۔ ایک روز حسب معمول ہم ایک چھوٹے سے کمرے میں چائے پی رہے تھے۔ اخبارات میز پر رکھے تھے۔ پاراچنار میں 22 اہل تشیع ہم وطنوں کی موت کی خبر تھی۔ ہم تینوں خاموش تھے۔ مجھے خجالت تھی کہ کن لفظوں میں، کیسے، کس سے اور کیا تعزیت کروں۔ مہدی حسن اور آصف زیدی حد درجہ وضع دار تھے۔ موت مگر اپنی ایک چبھن رکھتی ہے۔ یہ شرمندگی زندگی بھر میرے ساتھ رہے گی۔ ہم بلھے شاہ کے بالکے ہیں۔ نہ میں مومن وچ مسیتاں شناخت کی بنیاد پر تشدد اور ظلم کی نفسیات بہت پیچیدہ ہے، اس کی چبھن بہت دیرپا ہوتی ہے۔ قومی ریاست کا بنیادی تصور یہ ہے کہ بہت سے لسانی، مذہبی، نسلی اور ثقافتی گروہ اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے ایک عمرانی معاہدے میں مشترکہ مفادات اور حقوق کی بنیاد پر مساوی حیثیت سے ایک جغرافیائی منطقہ مرتب کرتے ہیں۔ قرارداد مقاصد نے ہماری قومی شناخت کی تشکیل میں کھنڈت ڈالی۔ لیاقت علی خان مرحوم جمہوریت پسند نہیں تھے۔ ان کی کم نگاہی نے اسکندر مرزا اور ایوب خان کو قوم پر کم و بیش آٹھ برس کا نادیدہ اقتدار سونپ دیا۔ لیاقت علی مغفور سمجھتے تھے کہ شبیر عثمانی سے ہاتھ ملا کے متحدہ ہندوستان میں مغل عہد کی تعلقہ دار نشانیوں کیلئے پاکستان میں غلبے کی ضمانت حاصل کر لیں گے۔ بابائے قوم تو 73 برس کی عمر میں چراغ سحری تھے۔ طالب علم نہیں جانتا کہ وہ دستوری سربراہ مملکت تھے یا پیش ناآمدہ مقامی حقائق کے یرغمالی یا تاریخ کے اسیر۔ یہ تنقید نہیں۔ مجھے آج بھی پاکستان میں ایک محمد علی جناح عنایت کیجئے، میں غیر مشروط اطاعت کروں گا۔ محمد علی جناح رہنما تھے، لیاقت علی خان نے بیڑا ڈبو دیا۔ رواں ماہ کی 12تاریخ کو قرارداد مقاصد پر پچھتر برس گزر گئے۔ آپ نے کولرج کی The Rime of the Ancient Mariner تو پڑھ رکھی ہے۔ لیاقت علی اور شبیر عثمانی کی عنایت کوئی چالیس برس ہمارے گلے میں حمائل رہی۔ پھر جالندھر کے میاں طفیل محمد (امیر جماعت اسلامی) اور ضیاالحق کے گٹھ جوڑ سے ہمارے دستورمیں نافذہ متن کے درجے کو پہنچی۔ ہمیں اپنی مہلت نفس میں اس صبح کی امید نہیں جب دستور پاکستان کو اس آلودگی سے پاک کیا جائے گا۔ ابھی تو ہم لاہور کی دو بیٹیوں سے جھونج رہے ہیں۔ ایک نے اپنا فرض منصبی ادا کیا اور شہرت دوام پائی۔ دوسری بیٹی کنگ لیئر کی کارڈیلیا ہے۔ بیٹیوں کا لباس ماں باپ کی عزت ہوتا ہے۔ جس جاہل قبیلے کو خطاطی اور مقدس کلمات میں امتیاز کرنے کی تہذیب نہیں، اس کی ذریات نے ایک بیٹی کی زندگی تباہ کر دی۔ ہم اس کے بچوں کو کیا جواب دیں گے۔ محترمہ شہربانو کو بوجوہ سعودی بادشاہت کی میزبانی مبارک، ہم مردود حرم تو اس بیٹی کی اذیت میں ہیں جس نے ناکردہ جرم کی معافی مانگی ہے۔ کس سے مانگی ہے؟ ہے اب بھی وقت زاہد، ترمیم زہد کر لے۔
زاہد کے ذکر سے خیال آیا کہ ہم اپنی تاریخ کے ایک پیچیدہ موڑ پہ کھڑے ہیں۔ میاں نواز شریف کی کوئی خبر نہیں۔ نیز یہ کہ علی امین گنڈاپور کی شہباز شریف سے ملاقات ہو گئی۔ اس تمثیل کے بہت سے منظر ابھی باقی ہیں۔ یہ کہانی الجھ گئی ہے۔ انتخابی عمل میں دھاندلی تو ہوئی ہے۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ کہاں ہوئی ہے، کس نے کی اور کیوں کی ہے۔ یہ معلوم ہے کہ پاکستان کے لوگ ہار گئے ہیں۔ دو نسلوں کو گمراہ کیا تھا اب ان کی آواز چھینی جا رہی ہے۔ یہ تو برے آثار ہیں فانی۔ بظاہر پیپلز پارٹی فائدے میں رہی ہے۔ آئندہ برسوں کے سیاسی منظرمیں اپنی جگہ کی ضمانت تو لے لی۔ لیکن وہ مرے خواب، مرے خواب، مرے خواب۔ خواب تو اس زمین پر بسنے والے محنت کش، دیانت دار اور قابل محبت انسانوں کی احترام کا تھا۔ وہ خواب پھر سے جھوٹا پڑ گیا۔ نیز یہ کہ پون صدی میں پہلی بار ہمیں یہ معلوم کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ ہم تاریخ کے دریا کی کس سمت کھڑے ہیں۔ ہم مشکل میں ہیں۔ پاکستان کی ریاست ہمیں پیاری ہے اور اس وفاق کی اکائیوں سے ہمیں محبت ہے۔ اس ملک کے ادارے ہمیں عزیز ہیں اور دستور میں بتایا گیا ہے کہ آئینی ادارے تین ہیں۔ مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا۔ یہ حرف لامکاں ہم پہ فروری 2018میں اترا یا فروری 2021 میں؟ ہمیں معلوم نہیں کہ اپریل 2022 اور مئی 2023 میں کیا ہوا۔ نیز یہ کہ فروری 2024 میں کیا وقوعہ رونما ہوا؟ پاکستان میں جمہور پسند کڑی آزمائش میں ہیں۔ یہ دار ورسن سے اگلی آزمائش ہے۔ ہم 1977، 1990اور 2008میں کھلے دل میں بتا سکتے تھے کہ قوم اور عوام کی قسمت سے کیا کھلواڑ ہو رہی ہے۔ اب تالاب اتنا گدلا ہو گیا ہے کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ تاریخ کا دریا کس سمت بہ رہا ہے۔ یہ شاعروں کے سینوں میں خواب دفن کرنے کی گھڑی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ