مولانا کا مقدمہ : تحریر نوید چوہدری


الیکشن 2024 کے بعد حکومت سازی کے مراحل بھی مکمل ہو چکے۔ ملک سینٹ انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سیاسی اور معاشی استحکام کے امکانات روشن ہورہے ہیں۔ ایسے میں اپنی فطرت سے مجبور پی ٹی آئی اور اسکی کے پی کے حکومت پوری کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان سے غیر یقینی کی کیفیت ختم نہ ہوسکے۔ یہ کھلا راز ہے کہ عمران خان کو آج بھی ریاستی نظام کے اندر سے سپورٹ فراہم کی جارہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں اصل سٹیک ہولڈر اسٹیبلشمنٹ ہے اور اس حوالے سے حکمت عملی تیار کرکے اس پر عمل درآمد کرانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ ایک دوسرا معاملہ بھی ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور وہ ہے مولانا فضل الرحمن کی شدید برہمی اور بڑی تحریک چلانے کا انتباہ۔ اس موضوع پر آگے بڑھنے سے پہلے دیکھنا ہوگا کہ پارلیمنٹ سے سڑکوں تک متحرک رہنے والی سڑیٹ پاور کے لحاظ سے سب سے بڑی جماعت کے ساتھ آخر ہوا کیا ہے؟ پارٹی ذرائع کا دعوی ہے کہ الیکشن 2024 سے کافی پہلے پیپلز پارٹی کی قیادت نے گراؤنڈ ورک شروع کردیا تھا کہ مولانا کو صدارتی امیدوار بننے سے روکا جائے۔اس حوالے سے خصوصا بلوچستان کو فوکس کیا جائے، دو ارب روپے کی خطیر رقم بھی تقسیم کی گئی۔ کے پی کے میں بھی ممکنہ حد تک سیاسی گڑبڑ کرانے کی کوشش کی گئی۔ یہ بات کوئی راز ہے ہی نہیں اس عام انتخابات میں دہشت گردوں خصوصا ٹی ٹی پی کا واحد ٹارگٹ جے یو آئی ف اور اسکی قیادت تھے۔ ایک باخبر اور زیرک شخصیت کے طور پر مولانا فضل الرحمن پہلے ہی بھانپ چکے تھے کہ انہیں ہر صورت انتخابی عمل سے آؤٹ کیا جائے گا۔ یوں تو دہشت گردوں نے کئی حملے کیے لیکن جولائی 2023 باجوڑ میں مبینہ خود کش حملے میں بیسیوں کارکنوں کی شہادت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی خبر عالمی میڈیا میں بھی بریکنگ نیوز بن گئی۔ اس واقعہ کے فوری بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے خود ہسپتال جاکر زخمیوں کی عیادت کی۔ آرمی چیف کو رخصت کرنے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے غم و غصے کی کیفیت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تحفظ فراہم کرنا ملکی سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اسی دوران یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ جب لیول پلئنگ فیلڈ ہی دستیاب نہیں تو الیکشن کو بے شک آگے لے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی جے یو آئی کے مستند ذرائع کا شکوہ ہے کہ ایک طرف پارٹی کو دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کے سامنا تھا اور دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کی قیادت نے تفصیلی دورہ امریکہ کے بعد ہر قسم کے رابطے مکمل طور پر منقطع کرلیے۔ یہ سلسلہ الیکشن 2024 کے بعد بھی جاری رہا لیکن سنا ہے کہ اب جب مولانا تحریک چلانے کی تیاری کررہے ہیں تو ان سے کسی نا کسی سطح پر پھر سے رابطے کیے جارہے ہیں۔ جے یو آئی کے اہم رہنماوں کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف تمام تر منصوبہ بندی عالمی اسٹیبلشمنٹ کی فرمائش پر کی گئی۔ امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک افغانستان کی طالبان حکومت کی جگہ وسیع النباد حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ امارات اسلامیہ افغانستان کے ساتھ معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی بات کرنے والے پاکستان کے اندر مضبوط سیاسی پوزیشنز پر ہوں۔ یاد رہے کہ عام انتخابات سے چند ہفتے قبل مولانا فضل الرحمن افغانستان کے دورے پر گئے تو انہیں غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا۔ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ جو منظر عام پر آتے ہیں نہ ہی کابل آنے والی غیر ملکی شخصیات سے ملاقات کرتے ہیں وہ بھی مولانا فضل الرحمن سے ملے۔ جے یو آئی کی جانب سے اس دورے کے نتیجے میں پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان تصفیہ طلب معاملات مذاکرات کے ذریعے احسن طریقے سے طے ہونے کے لیے ماحول ساز گار ہو گیا ہے۔ اسی دوران دفتر خارجہ نے اس تاثر کی یہ کہہ کر نفی کی کہ مولانا فضل الرحمن کا دورہ افغانستان ان کا ذاتی فیصلہ تھا اس سے ریاست پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔ صاف نظر آرہا تھا کہملکی سسٹم مولانا کو فاصلے پر رکھ رہا ہے۔ ایسے میں جے یو آئی کے لیے انتخابات کے نتائج بھی بہتر نہیں آئے۔ پارٹی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا کو ہرانے کے لیے ان کے حق میں کاسٹ ہونے والے ہزاروں ووٹ غائب کردئیے گئے۔ مولانا کے صاحبزادے اسعد الرحمن کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ وہ الیکشن جیت رہے تھے کہ ووٹنگ رکوا دی گئی، چند روز بعد ان پولنگ سٹیشنوں پر پھر پولنگ کرائی گئی تو شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد فائرنگ کرادی گئی، یوں مولانا اسعد الرحمن چند سو ووٹوں سے ہرا دئیے گے، جے یو آئی ف ان واقعات پر خاموش بیٹھنے کو تیار نہیں۔ پی ٹی آئی کی شدید خواہش ہے کہ جے یو آئی اس کے ساتھ مل کر سڑکوں کو گرم کرے اور شہباز حکومت کا چلنا ناممکن بنا دے۔ اگرچہ مولانا کو ن لیگ کے حوالے سے بھی تحفظات ہیں تاہم اس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ وہ عمران خان کی پارٹی کے ساتھ مل کر چلیں۔ ٹریک ریکارڈ گواہ ہے مختصر نوٹس پر بڑے بڑے لانگ مارچ اور دھرنے دینے والی جے یو آئی تشدد پر یقین نہیں رکھتی، لیکن اس پارٹی میں پوری صلاحیت موجود ہے کہ ملکی نظام کو پرامن احتجاج سے مفلوج کردے۔ مولانا فضل الرحمن کس حد تک آگے جائیں گے اس کا اندازہ تو عید کے بعد ہو گا۔ ریاست اور حکومت کے لیے یہی بہتر ہوگا کہ جے یو آئی کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لیں۔ ایسا نہ ہو کہ پی ٹی آئی کونارمل کرنے کی تمام تر کوششیں جے یو آئی کے میدان میں آجانے کے سبب بیچ میں ہی رہ جائیں اور پہلے سے بھی بڑا پنڈورا باکس کھل جائے۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات