جس زمانے میں خط لکھنے کا رواج تھا، تو سلامِ مسنون کے بعد خط میں پہلا جملہ یہ لکھا جاتا کہ آپ کی خیریت مطلوب ہے۔ اس عہد میں خطوط کے ذریعے بڑے بڑے مسائل حل کیے جاتے اور ذہنوں کی آبیاری کا اہتمام ہوتا۔ غالب کے خطوط نے ایک نیا دبستانِ ادب ایجاد کیا۔ علامہ اقبال نے اپنے خطوط کے ذریعے برِصغیر کے مسلمانوں کیلئے آزادی کی راہیں کشادہ کیں۔ سید ابوالاعلی مودودی ماہنامہ ترجمان القرآن میں نصف صدی تک خطوط کے جواب تحریر کرتے اور اِسلامی نظامِ حیات کی تشریح فرماتے رہے۔ اب وہ دور اِختتام کو پہنچا اور اب خیریت کسی بھی لمحے ٹیلی فون یا آئی پیڈ پر دریافت کی جا سکتی ہے اور اِس پر مخاطب کی تصویر بھی آ جاتی ہے۔ پہلے خط آدھی ملاقات کا درجہ رکھتا تھا جبکہ اب کسی بھی وقت پوری ملاقات کی جا سکتی ہے۔
یہ عجب ماجرا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں حیرت انگیز ترقی کے نتیجے میں انسان اپنے فطری جوہر سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ جوں جوں علم و تحقیق کے ادارے تعداد میں بڑھتے جا رہے ہیں، اسی تناسب سے ہماری مشکلات کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہمارے حصے میں صرف دو یونیورسٹیاں آئیں ایک پنجاب یونیورسٹی اور دوسری ڈھاکہ یونیورسٹی۔ آج پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں سینکڑوں یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ اِن کے علاوہ افواجِ پاکستان نے بھی اپنی الگ یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینک قائم کر رکھے ہیں جن میں بظاہر سائنسی اصولوں پر تعلیم و تحقیق کا نہایت عمدہ بندوبست کیا گیا ہے۔ اِسکے باوجود ہمارے منصوبہ ساز بار بار ماضی کی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں جن سے قوم بحرانوں کے بھنور سے ہلکان رہتی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا چرچا بہت زیادہ ہے، مگر اِس کی حقیقی نشوونما پر بہت کم توجہ دی گئی۔ میں جب 19رکنی وفاقی وزیروں کی فہرست پڑھ رہا تھا، تو وزیرِتعلیم کا نمبر سب سے آخر میں آیا۔ سندھ کی نو رکنی کابینہ میں وزیرِتعلیم کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ حکمرانوں کی یہ روش بہت پرانی ہے۔ ماضی میں بھی ہوتا رہا کہ وزارتیں تقسیم کر دی گئیں اور جب وزیر چلے گئے، تو وزیرِاعظم کو تعلیم کی وزارت کا خیال آیا اور جو شخص پیچھے رہ گیا، اسے تعلیم کی وزارت سونپ دی گئی۔ اِس تناظر میں وزیرِ تعلیم ہمیشہ غیراہم ہی رہا۔ پاکستان کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبے پنجاب کی تعلیمی حالت یہ ہے کہ تیس کے لگ بھگ یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلر کے بغیر ہی سالہاسال سے چل رہی ہیں جس کے باعث تعلیم کا معیار بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ کچھ یہی حال کالجوں اور اسکولوں کا ہے جو ذہنی اور اخلاقی تربیت کے اولین ادارے سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے 195 ممالک میں پاکستان کا درجہ 133واں ہے اور شرح خواندگی بہت کم ہے۔
شہریوں کو معقول تعلیم و تربیت دینے میں غفلت برتنے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ افراد کی فطری صلاحیتوں کی صحیح طور پر نشوونما نہیں پا رہی اور عصبیتوں اور غیرفطری خواہشات نے غلبہ پا لیا ہے۔ اللہ تعالی نے واجبی سمجھ بوجھ (Common Sense) سب ہی کو ودیعت کی جو حقیقت کے ادراک میں کم ہی غلطی کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسی ایک یورنیورسٹی سیمینار میں فرما رہے تھے کہ عربی زبان میں ظلم کی تعریف یہ ہے کہ کسی خیر کو غلط جگہ پر رکھ دیا جائے۔ ہمارے ہاں حقیقی منصوبہ ساز بالعموم اعلی مناصب کیلئیغلط لوگوں کا انتخاب کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے عام طور پر ایسے فیصلے کیے ہیں جن میں ہر چیز غلط جگہ پر دکھائی دیتی ہے، مگر انہیں نظر نہیں آتی۔ مجھے جناب الطاف گوہر اکثر یاد آتے ہیں۔ وہ فیلڈمارشل ایوب خاں کی رجیم کے بڑے طاقت ور سیکریٹری اور بلا کے دانش ور تھے۔ انہیں جنرل یحیی خاں نے ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ اِس کے بعد وہ روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور میرا ان سے قریبی رابطہ قائم ہو گیا۔ ایک روز میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے دورِ اِقتدار میں بعض فیصلے ایسے ہوئے جو ہمیں واضح طور پر نظر آ رہے تھے کہ وہ حکومت کو شدید ضعف پہنچائیں گے، مگر آپ جیسے دانش ور ان کا حصہ تھے۔ اِس پر جناب الطاف گوہر نے بیساختہ کہا تھا کہ اقتدار میں سامنے کی چیزیں دکھائی نہیں دیتیں اور بیشتر وقت سایوں کے تعاقب میں گزر جاتا ہے۔
آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے تیرہ چودہ سال کامن سینس سے محرومی میں گزارے۔ یہ تو عمومی سوجھ بوجھ کی بات ہے کہ جب آپ نوجوانوں میں بڑے مقبول لیڈر کو ایک ہفتے میں کڑی سزائیں دیں گے، تو اس کے پرجوش حامی تھے اور ان کے پیروکاروں اور جیالوں میں لامحالہ شدید ردِعمل پیدا ہو گا اور وہ دِیوانہ وار پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کریں گے اور تمام تر پابندیاں توڑ کر اپنی جماعت کے نامزد امیدواروں کے حق میں ووٹ دیں گے۔ اگر کامن سینس استعمال کیا جاتا، تو ایک متوازن راستہ اختیار کیا جا سکتا تھا۔ اِسی طرح یہ بھی کامن سینس کی بات ہے کہ سیاست طاقت کے ذریعے دفن نہیں کی جا سکتی، مگر اعلی دماغ دور کی کوڑی لا رہے ہیں اور سیاسی درجہ حرارت کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ 9 مئی کے حوالے سے حالیہ دنوں میں کورکمانڈرز کانفرنس کی طرف سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا، اس کی عمران خاں نے حمایت کی ہے اور 9مئی کے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اِس موقع کو مفاہمت میں ڈھالنے کے لیے کامن سینس سے کام لینے کی اشد ضرورت ہے۔ وقت پر درست اقدام نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، مگر نہاں خانوں میں تیار کیے ہوئے اے، بی، سی پلان اکثر بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ کامن سینس کہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے نگراں حکومت کے پانچ وزرا کو منتخب کابینہ میں شامل کر کے اچھا پیغام نہیں دیا۔ اب نئی حکومتوں اور اپوزیشن کے لیے مناسب راستہ یہی ہو گا کہ مہنگائی کی آگ ٹھنڈی کرنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کی جائے۔ پس ماندہ طبقوں کی حالت بہتر بنانے میں ہمارے اہلِ ثروت کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور رمضان المبارک میں حاجت مندوں کا پوری اپنائیت کے ساتھ دامن تھامنا ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ