کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق” : تحریر” نعیم قاسم


مئے مرد افگن عشق ایسی دو آتشہ شراب کو کہتے ہیں جو نشہ باز اور عشق کے گھائل متوالوں کو لمحوں میں ڈھیر کر دیتی ہے سوائے میدان اقتدار کے مرد حر کے جو مئے گلنار کا جام جم لہراتے ہوئے بار بار استفسار کرتا ہے” ہے کوئی مجھ جیسا عاشق جہاں بان جو قصر صدارت پر دوبارہ جلوہ افروز ہو اور تینوں دھڑوں ___اسٹیبلشمنٹ ،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ____کی سیاسی بالیدگی کا انحصار اس باکمال کاریگرکی ہنر مندی پر ہو باوجود اس کے کہ وہ تینوں کو ناپسند ہو مگر مجبوری بن جائے
ع” ایسا کہا ں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے” اسی لیے تو سیاسی پنڈتوں کی زبان زد عام پر ہے “ایک زرداری سب پر بھاری” برادرم نعیم مسعود “زاویہ زرداری” لکھ رہے ہیں دیکھتیں ہیں کہ وہ ان کی شخصیت اور سیاست کی کون کون سی مزید پرتیں اجاگر کرتے ہیں جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں ہوسکتا ہے یہ زاویے جیومیٹری کی اشکال کی مانند ہوں کیونکہ اشفاق احمد کے فکری اور اخلاقی زاویے تو زرداری صاحب کے لیے کسی صورت موزونیت نہیں رکھتے ہیں ___بہرحال یہ جملہ معترضہ ہے __1988 میں بے نظیر بھٹو پہلی دفعہ وزیراعظم بنیں تو خیال تھا کہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی کریڈیبلٹی کی خاطر مرد اول غیر سیاسی زندگی میں مگن رہیں گے مگر انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں پولو کے گھوڑے پالنے کے ساتھ ساتھ دوستوں کو بھی پالا پوسا اور سیاسی جوڑ توڑ میں بھی مصروف رہے ہمارے ایک جاننے والے پولو کے کھلاڑی کو برونائی میں سفیر مقرر کروایا اور سلطان آف برونائی کو اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے تحفے بھجوا کر اچھی سفارت کاری کا مظاہرہ کیا مگر دوست نوازی کی وجہ سے خاصے بدنام ہوئے
ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے

آصف علی زرداری کے ایک دوست فوزی علی کا ظمی تھے وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ پیدا تو غریب ہوا ہوں مگر مروں گا امیر پھر آصف علی زرداری کی دوستانہ آشیرباد سے وہ واقعی بہت امیر ہو کر فوت ہو ے آضف علی زرداری کے بہت سے دوست احباب ان کی مہربانیوں کے طفیل سیاسی اور مالی طور پر مضبوط اور خوشحال ہوئے کیونکہ ان کے متعلق یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں اور انہیں نوازنے میں بے حد فراخ دل ہیں وہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جیسے دوستوں نے ان کے احسانات کا بدلہ بڑے گھناؤنے طریقے سے چکایا مگر آصف علی زرداری نے اس کی قابل اعتراض باتوں کا کبھی جواب تک نہیں دیا دوستوں کو نوازنے کے الزام میں وہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خاتمے پر 1990 سے لے کر 1993 تک جیل میں چلے گئے اس دوران نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو انہیں جیل سے رہا کر کے وفاقی وزیر بنا دیا گیا پی ٹی وی لائیو پروگرام میں شرکت کے لیے آئے تو میں نے ان سے سوال کیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے دائر کار میں رہ کر اپنی سیاست کریں گے یا وہ بھٹو کی مزاحمتی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے بے نظیر بھٹو کے ماؤتھ پیس کا کردار نبھائیں گے وہ مسکرانے لگے اور انہوں نے جہاں بے نظیر بھٹو کے سیاسی وژن کو اپنا مشن قرار دیا وہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی مفاہمت کی بات کرتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات کو عملیت پسند سیاست کا اہم فیکٹر قرار دیتے تھے اس کی واضح مثال یہ ہے کہ انہوں نے نوابزادہ نصر اللہ کو صدر بنانے کی بجائے فاروق لغاری کو صدر بنوایا جو پیپلز میں اسٹیبلشمنٹ کا پلاننڈ پٹھو تھا اس غلط فیصلے سے بے نظیر بھٹو کی حکومت فاروق لغاری نے اس وقت ختم کی جب وہ مرتضی بھٹو کی شہادت کا سوگ منا رہی تھیں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ فاروق لغاری کی پشت پناہی کر رہی تھی زرداری صاحب کو 1996 میں گورنر ہاؤس لاہور سے گرفتار کر لیا گیا حالانکہ وہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے وقت دوبئی میں تھے مگر وہ پاکستان واپس آئے اور دس سال کے لیے جیل میں چلے گئے مگر انہوں نے نواز شریف کی طرح ڈینگیں نہیں ماریں کہ وہ لندن سے پاکستان آکر جیل میں چلے گئے جب کہ بیمار بیوی لندن ہسپتال میں تھی میاں نواز شریف کو کون دھوکے سے پاکستان بلا کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اس کا کھرا وہ اپنے گھر اور پارٹی میں تلاش کریں تو مل جائے گا آصف علی زرداری زرداری کی جیل میں زبان کا ٹی گئ مگر زرداری صاحب نے اپنے اوپر کئے گئے تمام مظالم پر نواز شریف اور شہباز شریف کو کبھی گلہ نہیں کیا اور ہمیشہ ان کے سیاسی حلیف بنے کیونکہ وہ سیاست کو ممکنات کا کھیل قرار دیتے ہیں جس میں کوئی اصول نہیں ہوتا ہے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے اعجاز الحق سے صدارتی ووٹ لیا جانا بھی معیوب تصور نہیں کیا جاتا ہے اگر اعجاز الحق کا باپ بھٹو کو شہید نہ کرتا اور اس کے نظریاتی پیروکار بے نظیر بھٹو کو قتل نہ کرتے تو کیسے بھٹو خاندان کی شہادتوں کے ثمرات زرداری خاندان کو منتقل ہوتے اور آصف علی زرداری دو دفعہ صدر بننے کے بعد بھٹو کی سیاسی میراث کے وارث ٹھہرتے اور اصلی بھٹوز دربدر ہو جاتے حالانکہ نصرت بھٹو کہا کرتیں تھیں کہ بھٹوز حکومت کے لیے پیدا ہوتے ہیں مگر صنم بھٹو، فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کہاں کے حاکم ٹھہرے سندھ کی حکمرانی تو حاکم علی زرداری کے خانوادے کو حاصل ہے یہی قسمت کے رنگ ڈھنگ ہیں بی بی زندہ رہتی تو شاہد آصف علی زرداری بقیا زندگی نیویارک کے فلیٹس میں ہی گزارتے اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں انہوں نے بہادری اور جوانمردی سے جیل کاٹی عمران خان کے دور میں بھی خرابی صحت کے باوجود جیلوں میں رہے مگر کبھی حوصلہ نہیں چھوڑا ان کی جوانمردی کی وجہ سے مجید نظامی صاحب نے انہیں مرد حر کہا جسکا مسلم لیگ ن والوں نے بہت برا بنایا انکی شخصی خوبیوں سے انکار نہیں مگر انہوں نے کبھی بھی پیپلز پارٹی کی نظریاتی سیاست کو فروغ نہیں دیا جس کی وجہ سے پنجاب اور کے پی کے میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ختم ہو گیا وہ کسی بھی معاہدے کو یہ کہ کررد کر دیتے ہیں کہ ایسے معاہدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے بے بہرحال یہ آصف علی زرداری کا اعلی ظرف یا سیاسی حکمت عملی ہے کہ انہوں نے اپنی اور بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کرنے والے شریف خاندان کے ساتھ شرکت اقتدار کی میمو گیٹ سکینڈل میں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے اور یوسف رضا گیلانی کو نااہل کرا دیا اعلان تو زرداری صاحب کا یہ تھا کہ وہ بلاول کو وزیراعظم بنائیں گے مگر شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا کر خود صدر بن گئے اور سیاسی وراثت میں بلاول کے ساتھ آصفہ کی شراکت کا کارڈ بھی چلا دیا بہرحال منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے عوام میں مقبول لیڈر پھانسی چڑھ گئے قتل ہوگئے عمران خان کی طرح جیل چلے گئے اور نواز شریف کی طرح راندہ درگاہ ہو گئے سواے مرد حر کے جو مئے اقتدار کا جام ہاتھوں میں لیے شاعرانہ تعلی کے ساتھ گویا ہے بقول غالب
کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد