احتجاج کی کال کے مقاصد اور ناکامی : تحریر مزمل سہروردی


پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر احتجاج کے لیے اتوار کو ایک کال دی تھی۔ اس کال کے تحت ملک بھر میں مبینہ دھاندلی پر احتجاج کے لیے لوگوں کو باہر نکلنے کے لیے کہا گیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ جیل سے بانی تحریک انصاف نے اس احتجاج کے لیے ضد کی تھی جب کہ تحریک انصاف کی قیادت کا موقف تھا کہ پارلیمان میں احتجاج اچھا جا رہا ہے۔

اس لیے سڑکوں پر احتجاج کی کوئی ضرورت نہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے پہلے یہی بیانات بھی دئے گئے کہ ہم پہلے پارلیمان میں احتجاج کریں گے اور سڑکوں پر آنے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہے۔ تاہم بانی تحریک انصاف نے اس حکمت عملی کو مسترد کرتے ہوئے فوری طور پر سڑکوں پر آنے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے اتوار کو ملک گیر احتجاج کی کال دی گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ کال کتنی کامیاب اور کتنی ناکام رہی۔ لیکن اس سے پہلے اس بات کا احاطہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کال کے پیچھے بانی تحریک انصاف کے مقاصد کیا تھے۔ میں سمجھتا ہوں بانی تحریک انصاف کو سمجھ آگئی کہ پارلیمان میں جتنا مرضی احتجاج کرلیا جائے اس سے وہ باہر نہیں آئیں گے۔ جو لوگ ان کے نام پر پارلیمان کے ممبر بن گئے ہیں ان کے نمبر تو بن جائیں گے۔لیکن ان کے باہر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

آپ اسمبلیوں میں جتنا مرضی شور کر لیں۔ بے شک حکومت کے سامنے یہ شرط بھی رکھ دیں کہ جب تک ہمارے لیڈر عمران خان کو رہا نہیں کیا جائے گا ہم حکومت سے کوئی تعاون نہیں کریں گے کچھ نہیں ہوگا۔ حقیقت میں حکومت کے پاس اتنی عددی اکثریت موجود ہے کہ اسے تحریک انصاف عرف سنی اتحاد کونسل کے تعاون کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔

اس لیے پارلیمان میں شور شرابے سے خبریں تو بن جاتی ہیں۔ لیکن ان کی رہائی ممکن نہیں۔ اسی لیے عمران خان کی حکمت عملی تو یہ ہے کہ کسی بھی طرح انھیں باہر نکالنے کا راستہ بنایا جائے۔ اسی لیے چند دن مفاہمت کی باتیں بھی کی گئیں۔ لیکن پھر خود ہی عمران خان نے کہا کہ انتخابات کے بعد بھی ان سے کسی نے بھی رابطہ نہیں کیا ہے۔ کوئی ان سے بات نہیں کر رہا ۔ اس لیے شائد پریشانی کی بات یہی تھی کہ ایک صوبے کی حکومت مل گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں اچھی سیٹیں مل گئی ہیں۔

پنجاب میں اچھی سیٹیں مل گئی ہیں لیکن اس سب کے باوجود کوئی بات نہیں کر رہا ۔ عمران خان کو اندازہ ہوا کہ انتخابی نتائج ان کی رہائی کے لیے کافی نہیں ہیں۔ بین الاقوامی برادری نے انتخابی نتائج کو قبول کر لیا ہے۔ اس لیے مبینہ دھاندلی کا شور عالمی سطح پر قبول نہیں کیا گیا۔ جس طرح ملکی سطح پر انتخابی نتائج قابل قبول ہو گئے ہیں اسی طرح عالمی سطح پر بھی انتخابی نتائج کو قبول کر لیا گیا ہے۔ اس سب نے شائد عمران خان کو زیادہ پریشان کیا ہے۔ کیونکہ دھاندلی کا بیانیہ بننے سے پہلے ہی دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

ایسی صورت میں سڑکیں گرم کرنے کے سوا کوئی آپشن باقی نظر نہیں آرہا اسی لیے بانی تحریک انصاف نے سڑکیں گرم کرنے کا آپشن فوری استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شائد ان کے خیال میں تھا کہ اب ان کی جماعت کے پاس پارلیمانی طاقت واپس آگئی ہے اس لیے ان کے احتجاج کو پہلے کی طرح روکنا آسان نہیں ہوگا۔ پہلے انھوں نے صوبائی اسمبلیاں توڑ کر اور استعفی دیکر غلطی کر دی تھی۔

اس لیے اسمبلیوں کی موجودگی میں سڑکیں گرم کرنا آسان ہوگا۔ ایک طرف پارلیمان میں ہنگامہ ہوگا۔ دوسری طرف سڑکوں پر ہنگامہ ہوگا تو ریاست اور ادارے ان سے بات کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ عمران خان کو یہ اندازہ بھی ہے کہ جتنا مرضی احتجاج کر لیں حکومت نہیں گرتی۔ وہ شائد حکومت گرانا بھی نہیں چاہتے لیکن ایسا ماحول بنانا چاہتے ہیں کہ ان کی رہائی کی بات شروع ہو جائے۔ اس لیے انھوں نے احتجاج کی کال دی تھی۔

آپ غلط موقع پر غلط کال دینے کا نتیجہ دیکھیں۔ اس ناکامی کی ایک قیمت تو یہ دینی پڑی ہے کہ ملاقاتوں پر پابندی لگ گئی۔ آپ ناکام احتجاج کے ساتھ جیل میں مراعات نہیں لے سکتے۔ ناکامی کی قیمت ہوتی ہے جو ادا کرنا ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس