انتہا پسندی کی قیمت : تحریر حسین حقانی


ایک پولیس افسر ،جس نے اس عورت کی زندگی بچائی ،کی بے پناہ تعریف کرنے کے بعد زیادہ تر پاکستانی اس واقعے کو بھول گئے کہ لاہور میں اس خاتون پر توہین مذہب کا الزام لگا تھا کیونکہ اس نے ایسا لباس پہنا ہوا تھا جس پر عربی خطاطی کا ڈیزائن تھا۔ وہ تشدد کا نشانہ بننے سے بال بال بچی ۔ ناخواندہ ہجوم اس ڈیزائن کو مقدس عبارت سمجھ رہا تھا ۔ یہ صورتحال پاکستان میں انتہا پسندی کے مسائل کو ایک بارپھر اجاگر کرتی ہے ۔ایسے واقعات کو نظر انداز کردینا یا یہ کہتے ہوئے جھٹک دینا انھیں دوبارہ رونما ہونے سے نہیں روک سکے گا کہ یہ تو مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے لوگ ہیں ۔ دسمبر 2021 ء میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے سری لنکن منیجر کو توہین کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنا کر مارڈالا اور پھر اس کی نعش کو آگ لگا دی ۔ بعد میں پتہ چلا کہ الزامات من گھڑت تھے ۔ لاہور میں عربی خطاطی والا لباس پہننے والی خاتون خوش قسمت تھی کہ وہ ایسے انجام سے بچ گئی ۔

اسلامی دنیا میں ملبوسات اور عمارتوں اور بہت سی دیگر چیزوں کو عربی خطاطی کے ڈیزائن سے سجانا ایک معمول کی بات ہے ۔ لیکن مذہبی معاملات، خاص طور پر توہین کے حوالے سے پاکستان کے غیر منطقی ماحول میں اس خاتون کی جان خطرے میں پڑ گئی ۔ اس واقعے کی عالمی سطح پر ہونے والی تشہیر نے اس بات کو یقینی بنادیا کہ جسکا بھی پاکستان میں کاروبار کرنیکا کوئی ارادہ ہے، اس واقعے کے بعد وہ سوچنے پر مجبور ہوجائیگاکہ اسے بھی ایسے ہی خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔

جب دنیا کسی قوم کو انتہا پسند یا جنونی خیال کرے تو اس قوم کو اسکی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ۔ نسلی بنیادوں پرکیا جانے والا تشدد ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو ان ممالک میں سرمایہ کاری کا سوچ رہے تھے جہاں کی آبادی انکی نسل سے مختلف ہو اور وہاں یہ فرق ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہو۔ پاکستان کے حوالے سے مذہبی انتہا پسندی اور عقائد کا خود ساختہ تحفظ ملک میں ممکنہ طور پر سرمایہ کاری اور تجارت کے فیصلے کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے ۔ لاہور کے واقعے کے دو دن بعد ایک عرب تاجر نے مجھ سے بات کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ اسے فوراً اپنی بیوی اور بیٹیوں کا خیال آیاہے۔ وہ بھی بعض اوقات ایسا لباس پہنتی ہیں ۔اس کا مزید کہنا تھا ،’’میں اپنے کاروبار کو پاکستان تک بڑھانے کا سوچ رہا تھا لیکن کیا میں ایسے حملوں کا خطرہ مول لے کر میں اپنی بیوی یا بیٹیوں کیساتھ لاہور یا کراچی میں سے گزرنا چاہوں گا؟‘‘پاکستان میں پہلے ہی توہین رسالت کے سخت ترین قوانین موجود ہیں اور اس کیس میں ہونے والے مقدمے کے بعد سزائے موت دی جاتی ہے۔ لیکن کچھ گروہ یہ بھی انتظار نہیں کرتے کہ قانون اپنا راستہ اختیار کرلے۔ وہ خود ہی جج، جیوری اور جلاد کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ کئی لوگوں کو مقدمات چلنے سے پہلے ہی تشدد کا نشانہ بنا کرمار دیا جاتا ہے ۔ الزام کے ثبوت کی کمی کی وجہ سے بری ہونے والوں پر بھی حملہ کیا جاتا ہے۔ گویا توہین مذہب کے الزام کے بعد کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ایسے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کو بھی ان لوگوں کے ردعمل سے ڈرنا پڑتا ہے ۔ پاکستانی معاشرے کو زیادہ مذہبی یا پرہیزگار بنانے کی بجائے ہجوم کو مذہب کے نام پر مشتعل کرنے سے ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ ہجوم خدا کا خوف کھو بیٹھتا ہے ۔ عربی خطاطی کا لباس پہننے والی خاتون کے حالیہ معاملے میں بھی خاتون کو معافی مانگ کرہجوم کے جذبات ٹھنڈے کرنا پڑے حالانکہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا۔ مولانا طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ عورت کی بجائے ہجوم میں موجود مردوں کو معافی مانگنا چاہئے تھی ۔

پاکستان میں یکے بعد دیگرے مختلف حکومتوںنے ایسے گروہوں کو خوش کیا ہے جو پاکستانیوں کو تقسیم اور خوفزدہ کرنے کیلئے مذہبی نعروں کااستعمال کرتے ہیں ۔ کچھ حکومتوں نے تو انتہا پسندوں کو پاکستان کی سلامتی کے ضامن یا سرحد پار افغانستان یا کشمیر میں پاکستانی اثر و رسوخ قائم رکھنے والے فاصلاتی بازو کے طور پردیکھا۔ مذہبی اشتعال انگیزی کی صنعت کو پروان چڑھاکر پاکستان کے بیرونی تعلقات اور معیشت کو زک پہنچائی گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2001-2018ء کے دوران دہشت گردی کے واقعات کی پاکستان کو براہ راست یا بلواسطہ طور پر 123.13 بلین ڈالر کی قیمت چکانا پڑی ۔ اس میں وہ قیمت بھی شامل کرلیں جومعاشرے کو جنونی اور مشتعل بنا کر ادا کرنا پڑی ہے کہ وہ جدید دنیا میں اپنا حقیقی مقام جاننے سے قاصر ہے ۔ مغرب کے نوآبادیاتی نظام کے تسلط میں آنے کے بعد مسلم دنیاکی طرح پاکستان نے بھی مظلومیت کا بیانیہ وضع کرلیا ۔ تمام قومی کمیونٹی بیانیوں کی طرح اس میں بھی کسی قدر سچائی ہے ۔ لیکن مسلم دنیا یا پاکستان کی حالیہ کمزوری کی وجہ صرف مغربی نوآبادیاتی نظام یا اس کے بعد کی سازشیں نہیں ۔ پاکستانیوں کو پست شرح خواندگی، غیر معیاری اعلیٰ تعلیم، افرادی قوت میں خواتین کے کم کردار کے مضمرات سمجھنے کی ضرورت ہے۔لیکن ا ن کے ذہنوں میں سازش کی تھیوریوں کے بیانیے ، زیادہ طاقتور اقوام سے نفرت اور ایسے مذہبی نعرے ڈالے جاتے ہیں جو مذہبی کم ، سیاسی زیادہ ہوتے ہیں۔

6 مارچ 1948 ء کو حسین شہید سہروردی (جو بعد میں مختصر عرصے کیلئے وزیر اعظم بنے) نے ملک کے ابتدائی رہنماؤں کو ایسی ریاست کی تعمیر کے خلاف خبردار کیاتھا جس کی بنیاد جذبات پر، یعنی اسلام خطرے میں یا پاکستان خطرے میںہے ، کے نعروں پر رکھی جائے گی ۔ سہروردی کے بقول، ’’ایک ایسی ریاست جو حملوں کے خطرے پر تیل گرا کرقائم کی جائے گی اورجسے آپ اپنے ساتھ آزاد ہونے والی جڑواں ریاست، انڈیا کے تصادم کی آگ سلگا کر قائم رکھیں گے، اس ریاست میں ہمہ وقت خطرے کی گھنٹی بجتی رہے گی۔ تم سمجھتے ہو کہ تم اس سے بچ جاؤ گے لیکن اس حالت میں نہ معیشت ہو گی، نہ کاروبار اور نہ تجارت ۔‘‘تقسیم ہند کے فوراً بعد غیر مسلموں پر حملوں کے خلاف خبردار کرتے ہوئے سہروردی نے کہا تھا کہ’’ اس طرح کے طرز عمل سے قانون کی حکمرانی ختم ہو جائے گی۔ اور وہ قانون شکن عناصر جو آج غیر مسلموں کے خلاف ہیں بعد میں مسلمانوں کے خلاف ہو جائیں گے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کو بروقت خبردار کیا جائے۔‘‘

آج ایسا لگتا ہے کہ ان الفاظ میں ہمارے مستقبل کی منظر کشی کردی گئی تھی۔ انتہا پسندی کو پیچھے دھکیلنے کی جامع حکمت عملی ہی ایک ایسے ملک کیلئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے جسے بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ